Maktaba Wahhabi

305 - 645
اس محرم کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے شکار کو مار دیا ہو؟ ٭ آپ نے اس کے جواب میں پوچھا : کیا اس نے حل میں شکار مارا ہے یا حدود حرم میں ؟ اور کیا وہ اس مسئلہ کا علم رکھتا تھا یا اس سے جاہل تھا؟ جانور کوپہلی بار مارا ہے یا پھردوسری بار پلٹ کر ماراہے یا پھر اپنی طرف سے بغیر کسی بات کے اسے مار ڈالا؟ اور کیا جانور چھوٹا تھا یا بڑا؟ کیا شکار پرندہ تھا یا پھر کوئی دوسرا؟ اس پر یحی بن اکثم بہت حیران ہوا ؛ اور عاجزی کے آثار اس کے چہرہ پر نمایاں نظر آنے لگے۔حتی کہ اہل مجلس کو آپ کی قدرو منزلت کا علم ہوگیا۔ مامون نے اپنے اہل بیت سے کہا: کیا جس چیز کا تم انکار کرتے تھے ‘ اب اس کو سمجھ لیا؟ پھر امام صاحب خلیفہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: کیا آپ اب یہ رشتہ مجھے دیں گے؟ خلیفہ نے کہا: ہاں ۔ آپ نے فرمایا: آپ خود ہی خطبہ نکاح پڑھ دو۔ پس خلیفہ نے خطبہ پڑھا‘ اور پانچ سو عمدہ دراہم پر نکاح ہواجس مہر پر آپ کی دادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا تھا۔ اور پھر اس کی شادی کردی۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی] جواب: محمد بن علی الجواد بنی ہاشم کے مشہور ومعروف افراد میں سے تھے ‘ آپ سخاوت وقیادت میں مشہور تھے ۔ اسی وجہ سے آپ کو جواد کہا جاتا ہے۔ آپ کا انتقال جوانی میں ہی پچیس سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ آپ کی پیدائش سن پچانوے ہجری میں ہوئی اور ایک سو بیس یا ایک سو انیس ہجری میں آپ کا انتقال ہوگیا۔ مامون نے اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کردی تھی ۔ خلیفہ ان کے پاس دس لاکھ درہم بھیجا کرتا تھا۔ پھر آپ کو بغداد بلالیا ‘ اور وہیں پر آپ کا انتقال ہوگیا۔ باقی جو کچھ اس رافضی مصنف نے ذکر کیا ہے ‘ یہ بھی اس سے پہلے کے کلام کی طرح ہے ۔ اس لیے کہ رافضیوں کے پاس نہ ہی عقل صریح موجود ہے اور نہ ہی نقل صحیح۔ نہ ہی حق کو قائم کرسکتے اورنہ ہی باطل کو مٹاسکتے ہیں ۔ نہ ہی حجت و بیان کے ساتھ اور نہ ہی ہاتھ اورشمشیر کے ساتھ ۔اس لیے کہ جو کچھ اس نے ذکر کیا ہے اس سے محمد بن علی کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی چہ جائے کہ اس سے امامت ثابت ہوجائے۔اس لیے کہ یہ حکایت جسے یحی بن اکثم سے بیان کیا جارہا ہے ‘ ان جھوٹی داستانوں میں سے ایک ہے جنہیں سن کر جاہل لوگ ہی بغلیں بجاسکتے ہیں ۔ یحی بن اکثم بہت بڑے عالم و فاضل اور فقیہ تھے ؛ ان کا رتبہ اس مقام سے بہت بلند تھا کہ وہ کسی کو عاجز کرنے کے لیے حالت احرام میں شکار کرنے کا سوال پوچھیں ۔اس لیے کہ چھوٹے چھوٹے علماء بھی اس مسئلہ کا حکم جانتے ہیں ۔یہ کوئی نادر یا دقیق علمی مسئلہ نہیں ہے جس کے حل کیلئے بڑے علماء کی ضرورت ہو ۔ پھر جو کچھ اس نے بیان کیا ہے ‘ اس میں فقط شکاری کے مختلف احوال کا بیان ہے۔ اور صرف اس تقسیم کاہونا اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ان میں سے ہر قسم کا حکم بھی معلوم ہو۔ بس اس سے صرف سوال کرنے کا اچھا انداز ظاہر ہوسکتاہے۔ہر اچھا سوال کرنے والے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ اچھی طرح جواب بھی دے سکتا ہو۔ اور پھر اگر اس نے ان ممکنہ اقسام کو اگر بطور واجب کے ذکر کیا ہے تو ان اقسام کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا۔اور اگر ایسا کرنا واجب نہ تھا تو پھر بعض چیزوں کی تفصیل ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔اس لیے کہ ان جملہ اقسام کے بارے میں اتنا ہی پوچھ لینا
Flag Counter