Maktaba Wahhabi

286 - 645
تشریف لائے اور فرمایا : کیا تم لوگوں نے یوں یوں کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں ، پھرمیں روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، یاد رکھو جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں ۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات کے قیام کو ناپسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں : میں دن کو روزہ رکھا کروں گا اور رات کو قیام کیا کروں گا تو آپ ان سے یوں مخاطب ہوئے: ’’ ایسا نہ کرنا۔اگر تم ایسا کرو گے توتیری آنکھوں میں گڑھے پڑ جائیں گے اور بدن کمزور ہو جائے گا۔ اور بیشک تیرے رب کا تجھ پر حق ہے ‘ اور تمہاری جان کا تم پر حق ہے؛ تمہاری ملاقات کے لیے آنے والے کا تم پر حق ہے۔ اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔پس ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو۔‘‘ [2] پس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساری ساری رات عبادت کرنا مستحب یا پسندیدہ نہیں ہے۔بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سنتوں کی روشنی میں ایسا کرنا مکروہ ہے۔ ایسے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روزہ رکھنے کا حکم بھی ہے۔بیشک افضل ترین روزے حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے تھے ۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کیا کرتے تھے۔ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب و روز میں تقریباً چالیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کار سے بخوبی آگاہ تھے،اور بڑھ چڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پابندی کرنے والے تھے ۔ آپ سے سنت کی مخالفت ممکن ہی نہیں ۔ پھر اس حد تک وہ آپ کی مخالفت کیوں کر کر سکتے تھے، بشرطیکہ ایک ہزار رکعات ادا کرنا ممکن بھی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایک ہزار رکعات پڑھنا ممکن ہی نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مختلف قسم کے مشاغل میں گھرا رہتا ہے، جسم کی راحت و آرام سونا، کھانا پینا، وضو کرنا، وظیفہ زوجیت ادا کرنا، اہل و عیال کی دیکھ بھال کرنا، رعیت کے امور سے عہدہ بر آہونا، غرض یہ کہ دسیوں قسم کے لوازمات ہیں جن پربلا مبالغہ انسان کا نصف وقت صرف ہوجاتا ہے، ایک گھنٹہ میں اسی رکعات ادا نہیں کی جا سکتیں ، بجز اس کے کہ صرف سورہ فاتحہ پڑھی جائے اور وہ بھی بلا سکون و اطمینان کوے کی طرح ٹھونگیں ماری جائیں ۔ہمارے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ آپ نماز میں منافقوں کی طرح ٹھونگے مارنے لگیں اور اﷲ کو بہت کم یاد کریں ، جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter