Maktaba Wahhabi

225 - 645
کیے اور پھر ان سے مسائل کا استنباط کیا ؛ اس بنا پران اقوال کو ان ائمہ کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ جس طرح کتب حدیث کو ان کے جامعین مثلاً امام بخاری و مسلم اور ابو داؤد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، بعینہ اسی طرح مختلف قراء توں کو ان ائمہ کی جانب منسوب کیا جاتا ہے جنھوں نے وہ قرأت اختیار کی تھیں ؛ جیسے کہ نافع اور ابن کثیر وغیرہ ۔ غالب طور پران ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال سابقین سے منقول ہیں ۔بعض کے ہاں ایسے بھی کچھ اقوال پائے جاتے ہیں جو کہ متقدمین سے منقول نہیں ہیں ۔لیکن انہوں نے یہ اقوال ان ہی اصولوں کی بنیاد پر استنباط کیے ہیں ۔اس سے ان کے اقوال میں موجود غلطی واضح ہوگئی۔ یہ سب کچھ دین کی حفاظت کے لیے ہوا ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ اس صفت کے اہل ہوجائیں [جس میں ارشادفرمایاہے ]: ﴿یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ﴾ (التوبہ:۷۱) ’’ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔‘‘ پس جب بھی کسی سے بھول کر یا عمداً غلطی واقع ہوئی تو دوسرے علماء کرام نے اس پر آگاہ کیا ؛ اور اس غلطی پر رد کیا۔ علمائے کرام رحمہم اللہ کا مرتبہ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْم وَکُنَّا لِحُکْمِہِمْ شٰہِدِیْنo فَفَہَّمْنٰہَا سُلَیْمٰنَ وَ کُلًّا اٰتَیْنَاحُکْمًا وَّ عِلْمًا وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَ وَ کُنَّا فٰعِلِیْنَ﴾ (الانبیاء: ۷۸۔۷۹) ’’اور داد اور سلیمان( رحمہم اللہ )کو یاد کیجئے جبکہ وہ کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر گئی تھیں اور ان کے فیصلے میں ہمشاہد تھے۔ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔ہم نے ہر ایک کوحکمت و علم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کر دیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اور پرندبھی؛ ہم ایسا کرنے والے ہی تھے ۔‘‘ صحیحین میں ثابت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ احزاب سے واپس ہوئے تو ہم لوگوں سے فرمایا :’’ کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں پہنچ کر۔‘‘ چنانچہ لوگوں کے راستہ میں ہی نماز عصر کا وقت ہوگیا، تو بعض نے کہا کہ: ہم نماز نہیں پڑھیں گے جب تک کہ وہاں (بنی قریظہ)تک پہنچ نہ جائیں ۔ اور بعض نے کہا کہ ہم تو نماز پڑھیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم قضا کریں ۔ اور بعض نے بنو قریظہ میں پہنچ کر غروب آفتاب کے بعد نماز پڑھی۔ جب اس کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ملامت نہ کی۔‘‘[1]
Flag Counter