Maktaba Wahhabi

223 - 645
صحابہ حجت نہیں تو پھر اس کو بنیاد بناکر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ [اعتراض]:اگر یہ کہے کہ : ’’ اہل سنت والجماعت اجماع صحابہ کو حجت مانتے ہیں اورپھر اسکی مخالفت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔‘‘ [جواب] : اہل سنت والجماعت کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اجماع صحابہ کرام کے خلاف یک زبان ہو جائیں ۔ جب کہ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ شیعہ امامیہ عترت نبوی[اہل بیت؛ بنو ہاشم]اور حضرات صحابہ دونوں کے متفق اجماع کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد سعادت مہد میں بنی ہاشم کا کوئی فرد اس بات کا مدعی نہ تھا کہ:’’ بارہ امام معصوم ہوں گے؛ یا یہ کہ سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص معصوم بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ بخلاف ازیں کوئی شخص خلفائے ثلاثہ کے کفر کا قائل تھا نہ ان کی امامت پر طعن و تشنیع کرتا تھا اور نہ ہی صفات اللہ تعالیٰ کا کوئی منکر تھا اور نہ تقدیر کا۔ [اس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے، کہ امامیہ اہل بیت و صحابہ دونوں کی مخالفت کرنے میں متحد الخیال ہیں ، پھر انہیں لوگوں پر معترض ہونے کا کیا حق ہے، جو اہل بیت و صحابہ دونوں کے اجماع کو حجت مانتے ہیں اور اس کی مخالفت سے اجتناب کرتے ہیں ]]۔ پانچویں وجہ:....یہ اعتراض کہ:’’ اہل سنت نے مذاہب اربعہ ایجاد کرلیے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں تھے۔‘‘ [جواب ]:اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کے خیال میں اہل سنت نے حضرات صحابہ کے عین بر خلاف جمع ہو کر باتفاق رائے یہ مذاہب ایجاد کر لیے تھے تو یہ عظیم افترا ہے۔ اس لیے کہ یہ چاروں مذاہب ایک ہی زمانہ میں نہ تھے۔بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وفات ۱۵۰ہجری میں ہوئی۔امام مالک رحمہ اللہ کی وفات ۱۷۹ ہجری میں ہوئی ۔امام شافعی رحمہ اللہ کی وفات ۲۰۳ ہجری میں ہوئی ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی وفات ۲۳۱ ہجری میں ہوئی ۔ مزید برآں ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی تقلید نہیں کرتا تھا اور نہ دوسروں کو اپنی پیروی کا حکم دیتا تھا۔ بخلاف ازیں یہ سب ائمہ اتباع کتاب و سنت کی دعوت دیتے اور دوسروں پر تنقید کیا کرتے تھے۔باقی رہا یہ معاملہ کہ لوگ ائمہ اربعہ کی اطاعت کرتے ہیں ؛ تو یہ ایک اتفاقی بات ہے۔نیز یہ کہ : جب ان میں سے کوئی ایک کوئی ایسی بات کہے جو کتاب و سنت کی مخالف ہو تو اس کو چھوڑ دینا واجب ہوجاتا ہے ؛ اورلوگوں پر اس کی تقلید واجب نہیں ہوتی۔ ٭ اگر تم شیعہ کہو کہ : لوگ ان مذاہب کی پیروی کررہے ہیں ؛یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے۔بلکہ لوگوں نے آپس میں اتفاق سے طے کیا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اور تم اس کی پیروی کرو۔ ان کی مثال ان حجاج کی ہے جنہیں کسی رہبر کی تلاش ہو ‘ پھر انہیں کوئی رہنما مل جائے ۔ کچھ لوگ اسے ماہر راہبر سمجھ کر اس کے پیچھے چلنے لگیں اور کچھ لوگ اس کو چھوڑ کر الگ چل دیں ۔ [جواب]: اگر واقعی ایسا ہے تو پھر بھی اہل سنت و الجماعت کا اتفاق کوئی باطل نہیں ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک گروہ دوسرے کی خطا پر آگاہ کرتا ہے۔ کیونکہ ان کا اتفاق اس بات پر نہیں ہے کہ جو کچھ بھی متعین شخص کہے ؛ وہ ہر حال میں
Flag Counter