Maktaba Wahhabi

217 - 645
ممانعت ہے۔ اس لیے کہ حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔اس سے مراد وہ حاکم ہے جن کا حکم چلتا ہو۔ اس سے مراد وہ نہیں ہے جو کہ حاکم بننے کا مستحق ہو‘ مگر [حاکم نہ بنا ہو] اور اسے کوئی شوکت وغلبہ حاصل نہ ہو۔ اور اس سے عادل متولی بھی مراد نہیں اس لیے کہ کبھی کبھار وہ بھی ظلم کرتے ہیں ؛پس حدیث دلالت کرتی ہے کہ اس سے مراد ظالم حکام سے جھگڑے کی ممانعت ہے۔یہ ایک وسیع باب ہے ۔ چوتھی بات:....اگر ہم یہ بات مان لیتے ہیں کہ ہر حاکم کے لیے عدل کا ہونا شرط ہے ۔ تو پھر اس صورت میں صرف ان ہی حکمرانوں کی اطاعت کی جائے گی جو عادل ہوں ۔ ظالم کی کوئی اطاعت نہیں ہوگی۔اس میں کوئی شک نہیں کے لیے والیان کے لیے عادل ہونے کی شرط رکھنا گواہوں کے عادل ہونے کی شرط سے بڑھ کر نہیں ہے ۔ اس لیے کہ گواہ کبھی ایسی چیز کی بھی گواہی دیتا ہے جس کے متعلق وہ کچھ حقائق نہیں جانتا۔ اگر وہ عادل نہ ہو تو پھر اس کی بتائی ہوئی بات کی تصدیق نہ کی جائے۔ جب کہ والی حکومت کسی چیزایسی چیز کا حکم دیتا ہے جس کا علم اسے کسی دوسرے کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے۔اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کام ہے یا نافرمانی کا۔اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا﴾ (الحجرات: ۶) ’’اے مسلمانو!اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔‘‘ اگر کوئی فاسق انسان کسی بات کی خبر دے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تحقیق کرنے کا حکم دیاہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ ظلم اطاعت کا کام کرنے اور نیکی کا حکم دینے میں مانع نہیں ہوسکتا۔ امامیہ کا اس بات پر ہمارے ساتھ اتفاق ہے۔ امامیہ یہ نہیں کہتے کہ : کبیرہ گناہ کرنے والاہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ ان کے نزدیک بھی فسق و فجور کی وجہ سے ساری نیکیاں ضائع نہیں ہوتیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جو اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں ؛ جیسے معتزلہ ‘ زیدیہ اور خوارج۔ جوکہتے ہیں کہ : فسق کی وجہ سے ساری نیکیاں تباہ ہوجاتی ہیں ۔اگر ساری نیکیاں ضائع ہوگئیں تو ایمان ضائع ہوگیا۔جب ایمان ضائع ہوگیا تو انسان کافر اور مرتد ہوگیا ‘ اس کا قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔ جب کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصوص اور اجماع امت اس پر دلالت کرتے ہیں کہ چوری کرنے والا ‘ زنا کرنے والا ‘ شراب پینے والا ‘ بہتان تراشی کرنے والا ؛ انہیں ان جرائم کی پاداش میں قتل نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ ان پر حد لگائی جائے گی ۔ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ لوگ مرتد نہیں ہوئے ۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا ﴾ (الحجرات: ۹) ’’اگر مومنوں کی دو جماعتیں باہم برسر پیکار ہوں تو ان میں صلح کرا دیجئے ۔‘‘ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ان گروہوں کے آپس میں برسر پیکار ہونے [اور ایک دوسرے کو قتل کرنے] کے باوجود ان میں ایمان موجود ہے۔ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ((مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ
Flag Counter