Maktaba Wahhabi

195 - 645
جب ان دونوں مسئلوں میں سے کسی ایک غیر متعین میں ہمارا مبنی بر خطأ ہونا لازم آتا ہے تواس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ ہی راست اور حق پر ہوں ۔ اور جب مجبوراً ہمیں دونوں فرقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑا تو ہم اس فرقہ کی موافقت کو پسند کریں گے جس کا نقطۂ نظریہ ہے کہ اﷲتعالیٰ جب چاہتا ہے تو بولتا ہے۔جو فرقہ یہ کہتا ہے کہ اﷲتعالیٰ کسی اور چیز میں اپنا کلام پیدا کر دیتا ہے، ہم اس کے ہم نوابننا پسند نہیں کریں گے، اس لیے کہ یہ نظریہ شرعاً و عقلاً فاسد ہے بہ نسبت اس قول کہ وہ ایسا کلام کرتا ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے؛ اور وہ اس کی مشئیت اور قدرت سے متعلق ہے۔ پھر وہ جمہور مسلمین جو کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مشئیت اور قدرت سے ایسا کلام کرتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے؛ ان کا دو اقوال میں اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مشئیت اور قدرت سے ایسا کلام کرتا ہے جو پہلے سے اس میں موجود نہیں تھا۔ یہ کرامیہ اور ان کے موافقین کا مذہب ہے۔ ۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم رہا ہے؛ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے کلام کرتا ہے۔ جیسا کہ ائمہ اہل سنت و الجماعت اور کلابیہ اوردیگر محدثین جیسے عبداللہ بن مبارک ؛ أحمد بن حنبل اور ان کے علاوہ دوسرے ائمہ اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ کلابیہ کہتے ہیں : اگرہم ان میں سے کسی ایک کی موافقت کے لیے مجبور ہوں جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق ہے؛ اور جو کہتے ہیں : اس کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے؛اور جنس کلام اس کی ذات میں عدم کے بعد پیدا ہوئی ہے؛ توان کے کلام میں معتزلہ کے عقیدہ کی نسبت بہت کم فساد اور خرابی پائی جاتی ہے۔ معتزلہ کے عقیدہ کا فساد زیادہ ظاہر ہے۔ بلاشک وشبہ دلیل اس کی نفی کرتی ہے کہ کسی چیز کا اس کی ذات سے اور اس کی ضد سے خالی نہیں ہوتی۔ یہ ایسی کمزور حجت ہے کہ اس کے ضعف کا اعتراف اس فرقہ کے بڑے ماہر علماء اوراہل انصاف لوگوں نے کیا ہے؛ ان کا اعتراف ہے کہ:ان کے پاس کوئی ایسی عقلی یا سمعی دلیل نہیں ہے جو حوادث کے اس ساتھ قائم ہونے کی نفی کرتی ہو؛ سوائے اس دلیل کے جو مطلق طور پر صفات کی نفی کرتی ہو۔ تو پھر کی دوسرے قول کی طرف پلٹنا کیسے ممکن ہے جو کہ اسلاف محدثین کا قول ہے۔ غرض اہل حدیث کا یہ قول کہ وہ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہے [کلام کرے]؛ دو مقدمات پر مبنی ہے: ایک یہ کہ: اس کے ساتھ امورِ اختیاریہ قائم ہیں اور یہ کہ اس کا کلام بے نہایت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًاo﴾ (الکہف: ۱۰۹) ’’کہہ دے اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقیناً سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں ، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں ۔‘‘ اوراﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo﴾ (لقمان: ۲۷)
Flag Counter