Maktaba Wahhabi

193 - 645
کہیں گے۔ تو بھلا ان لوگوں نے اس بات کو رب تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کو کیونکر احسن جان لیا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]: اس کے کئی جوابات ہیں : اوّل:....یہ کہا جائے گا کہ یہ کلابیہ کا قول ہے۔کلابیہ ان لوگوں میں سے ایک جماعت ہیں جو کہتی ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ہے۔ اور یہ خلفائے ثلاثہ کو ماننے والی ایک جماعت کا قول ہے۔ ان کا قول چاہے حق ہو یا باطل تب بھی مذہبِ رافضہ کی صحت کو مقتضی نہیں اور نہ اہلِ سنت کے قول کے بطلان کو ہی مقتضی ہے۔پس اس نے جس قول کا ذکر کیا ہے؛ اگر یہ باطل ہے تو خلفاء ثلاثہ کے ماننے والوں کی اکثریت اس کا عقیدہ نہیں رکھتی۔ اور نہ ہی وہ لوگ اس کا عقیدہ رکھتے ہیں جو قرآن کو مخلوق کہتے ہیں ؛ جیسے معتزلہ ۔جو لوگ قرآن کو غیر مخلوق قرار دیتے ہیں ، مثلاً کرامیہ، سالمیہ ائمہ سلف اور مذاہب اربعہ کے اہل الحدیث وہ اس نظریہ کے قائل نہیں جس کا تذکرہ شیعہ مضمون نگار نے کیا ہے[ پس اس کو ذکر کرنے سے رافضی کا مقصود حاصل نہیں ہوتا]۔ دوم:....یہ کہا جائے کہ: اکثر شیعہ اور ائمہ اہل بیت بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن غیر مخلوق ہے۔ یہ قول ان کے اقوال میں سے ایک ہے اور اگر یہ حق نہیں تو یہ کہنا بھی ممکن ہے ان کے دیگر اقوال بھی ایسے ہی ہیں ۔ سوم :....یہ کہا جائے گا کہ:فرقہ کلابیہ اوراشاعرہ نے یہ نظریہ اس لیے اختیار کیا کہ اس مسئلہ کی اصل و اساس میں وہ معتزلہ کے ہمنوا ہیں ۔یہ سب حدوث اجسام کی دلیل کو صحیح تسلیم کرنے میں یک زبان ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اس چیز کو بھی حادث قرار دیتے ہیں جو حوادث سے خالی نہ ہو۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس چیز کے ساتھ حوادث کا قیام ہو وہ حوادث سے خالی نہ ہوگی، جب کہا جاتا ہے کہ جسم حرکت و سکون سے خالی نہیں ہے؛ تو وہ کہتے ہیں کہ: ازلی سکون ممتنع الزوال ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ازل سے موجود ہے اور جو چیز ازل سے موجود ہو اس کا زوال محال ہوتا ہے۔ علی ہذا القیاس جو چیز حرکت کو قبول کر سکتی ہے اور وہ ازلی بھی ہو تو اس کی حرکت بھی ازلی اور ممتنع الزوال ہوگی۔ ازلی حرکت کو تسلیم کرنے سے یہ لازم آئے گا کہ کچھ ایسے حوادث بھی ہوں جو ازلی ہوں اور ان کا نقطۂ آغاز معلوم نہ ہو۔حالانکہ یہ ممتنع ہے۔ اس سے یہ لازم آیا کہ ذات باری کے ساتھ حوادث کا قیام ممکن نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بات ادلہ عقلیہ یقینیہ سے ثابت ہے اور انہیں بخوبی معلوم ہے کہ کلام متکلم کے ساتھ اسی طرح وابستہ ہوتا ہے، جس طرح صفت علم کا قیام عالم کے ساتھ ہوتا ہے، قدرت قادر کے ساتھ اور حرکت کا متحرک کے ساتھ، یہ بھی مسلم ہے کہ جو کلام اﷲتعالیٰ کسی دوسری چیز میں پیدا کر دیتے ہیں وہ اس کا کلام نہیں ہوتا بلکہ وہ اس چیز کا کلام کہلائے گا جس کے ساتھ وہ قائم ہے۔ اس لیے کہ صفت جب کسی محل کے ساتھ قائم ہو؛تو اس کا حکم اسی محل پر لوٹتا ہے۔اسے کسی دوسرے پر نہیں لوٹایا جاتا ۔اس محل کے لیے اس سے نام مشتق کیا جاتا ہے جو کہ کسی دوسرے کے لیے مشتق نہیں کیا جاتا۔ پس اگر کسی دوسرے میں پیدا کیا گیا کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہوتا تو اس سے چار باطل امور لازم آتے : ۱۔ اس سے مشتق اسم اورصفت کا ثبوت غیر اللہ کے لیے۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ سے اس حکم اور اسم کی نفی جو کہ دونوں عقلی اور
Flag Counter