Maktaba Wahhabi

168 - 645
لفظ ماہیت کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے، وہ یوں کہ ماہیت واجب اور ممکن میں تقسیم ہوتی ہے۔ الی آخر الکلام۔ ۲۔ دوسرا حل شبہ کے طور پر۔ وہ یوں خارج میں موجود دو چیزیں ، چاہے وہ دونوں واجب ہوں یا ممکن، اور چاہے وہ دونوں موجود جسم ہوں یا جوہر، حیوان ہوں یا انسان وغیرہ وغیرہ کہ خارج میں دونوں میں سے کوئی ایک چیز دوسری کو اپنے خصائص میں شریک نہ کرے گی۔ نہ وجوب میں ، نہ وجود میں ، نہ ماہیت میں اور نہ کسی اور چیز میں ۔ وہ صرف اس کے ساتھ اس چیز میں مشابہ ہو گی۔ وہ مطلق جس میں وہ شریک ہوں گی، وہ خارج میں کلی مشترک نہ ہو گا مگر ذہن میں ۔ اور وہ خارج میں کلی عام مشترک نہ ہو گا بلکہ جب یہ کہا جائے گا کہ دو واجب جب وجوب میں مشترک ہوتے ہیں تو لازم ہے کہ ہر ایک دوسرے سے اپنی خصوصیت کے ساتھ ممتاز ہو اور یہ اس کہنے کی طرح ہے: جب دونوں حقیقت میں مشترک ہوں گے تو ضروری ہے کہ ہر ایک اپنی خصوصیت کے ساتھ دوسرے سے ممتاز ہو۔ سو حقیقت حقیقت عامہ بھی ہوتی ہے اور حقیقت خاصہ بھی۔ جیسا کہ وجوب عام بھی ہوتا ہے اور خاص بھی۔ اب عام مشترک نہ ہو گا۔ مگر ذہن میں اور خارج میں صرف خاص ہو گا جس میں کوئی اشتراک نہیں ہوتا اور جس میں اشتراک ہو اس میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا اورجس میں امتیاز ہو، اس میں اشتراک نہیں ہوتا۔ سو اب خارج میں ایسی کوئی شے واحد نہ رہ گئی جس میں مشترک اور ممیز دونوں ہوں ۔ البتہ اس میں وصف ہوتا ہے جس میں دوسرا اس کے مشابہ ہوتا ہے اور ایسا وصف بھی ہوتا ہے جس میں دوسرا اس کے مشابہ نہیں ہوتا۔ ان لوگوں نے الٰہیات میں بھی ویسی ہی غلطی کی ہے جیسی انھوں نے منطق کی کلیات: جنس، نوع، فصل، خاصہ اور عرضِ عام وغیرہ میں کی ہے۔ وہ یوں کہ انھیں اس بات کا وہم ہوا کہ خارج میں کلی مشترک پائی جاتی ہے۔ ہم نے اس پر تنبیہ کر دی ہے اور واضح کر دیا ہے کہ خارج میں کلی مشترک کا کوئی وجود نہیں ۔ مگر مختص پایا جاتا ہے جس میں کوئی اشتراک نہیں ہوتا۔ اور اشتراک، عموم او کلیت وجود کو تب عارض ہوتی ہے جب وہ خارج میں نہ ہو بلکہ ذہن میں ہو۔ ان لوگوں نے کلی کی تین اقسام کر دی ہیں : (۱) طبیعی (۲) منطقی اور (۳) عقلی کلی طبیعی:....یہ مطلق ہے جو کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ۔ جیسے انسان ’’من حیث ہو ہو‘‘ اپنی جمیع قیود سے قطع نظر۔ کلی منطقی:....یہ عام اور خاص اور کلی اور جزئی ہے۔ سو نفس وصف کلی یہ منطقی ہے۔ کیونکہ منطقی میں قضایا پر اس اعتبار سے بحث کی جاتی ہے کہ یہ قضیہ کلیہ ہے یا جزئیہ۔ کلی عقلی:....یہ دو باتوں کا مجموعہ ہے اور یہ انسان کا عام اور مطلق ہونے کے ساتھ موصوف ہونا ہے۔ ان کے نزدیک یہ کلی صرف ذہن میں ہی پائی جاتی ہے۔ البتہ افلاطون کے حواریوں سے امثلہ افلاطونیہ حکایت کی جات یہیں جن کا باطل ہونا بے غبار ہے۔ کیونکہ خارج میں عام نہیں پایا جاتا اور رہی کلی منطقی تو وہ بھی صرف ذہن میں پائی جاتی ہے۔ البتہ
Flag Counter