Maktaba Wahhabi

159 - 645
ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حرکت کو واجب کرتا ہو۔ اور نہ اس کے اوپر کوئی متجدد ہے جو اس کی حرکت کاتقاضا کرتی ہو۔ کیونکہ اس وقت فلک کی حرکت اس کے اختیار سے ہو گی۔ جو انسان کی اپنے اختیار سے حرکت کی طرح ہوتی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فلک کا اپنے اختیار و قدرت کے ساتھ حرکت کرنا یہ ممکن ہے نہ کہ واجب بنفسہ لہٰذا اس کے لیے مرجح تام کا ہونا لازم ہے۔ لہٰذا وہ ہر وقت میں اپنے قدرت و اختیار سے حرکت کرتا ہے۔ سو اس کے محترک ہنے کے لیے کسی امر کا ہونا لازم ہے جو اسے واجب کرے۔ وگرنہ حوادث کا بلا محدث کے حدوث لازم آئے گا۔ [اعتراض ]: اگر یہ کہا جائے کہ موجب بذاتہ وہ مرجح ہے یا فاعل مرجح ہے، چاہے وہ بالواسطہ فاعل ہو یا بلاواسطہ اور وہ عقل یا عقول سے صادر ہوتا ہے۔ جواب : یہ قول باطل ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک موجب بذاتہ ازل سے ابد تک ایک ہی حال پر ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بات ممتنع ٹھہری کہ اس سے کسی حادث کا صدور ہو بعد اس بات کے کہ اس سے اس حادث کا صدور پہلے نہ ہوا تھا او حرکت کا ہر جز حادث ہے بعد اس کے کہ پہلے وہ نہ تھا۔ لہٰذا اس حادث کا ازل میں ثابت ہونا ممتنع ٹھہرا اور یہ کہ ازل میں اس کے فاعل کا علت تامہ ہونا بھی ممتنع ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ان حوادث کا ازل میں علت تامہ سے صدور ممتنع ہوا۔ پھر یہ کہ حوادث کا مرجح اگر تو ازل میں مرجح تام ہے تو اس کے لیے مفعول لازم ہوا۔ حالانکہ اس سے اس کے بعد کوئی شے حادث نہیں ہوئی اور اگر وہ ازل میں مرجح تام نہیں ؛ تو وہ عدم کے بعد مرجح بنا؛ تو یہ بات ممتنع ہے کہ کسی غیر نے اسے مرجح بنایا ہو۔ پس اس کا مرجح وہی ہوگا؛ جو اپنے ارادہ سے اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔ اور یہ امور ازل میں مرجح تام نہیں ۔ وگرنہ حوادث کا بطلان لازم آئے گا۔ سو مرجح سے ازل میں کسی ایسی چیز کا صدور ممتنع ہواجو اس کے مقارن ہو۔ سو فلک کا قدیم ہونا بھی ممتنع ٹھہرا ۔ یہ اس کے لیے مرجح ٹھہرا جو اسے عدم کے بعد راجح کرتا ہے۔اسی طرح حوادث کی اس کی طرف اضافت واجب ٹھہری کیونکہ حوادث کی مرجح تام کی طرف اضافت واجب ہے۔ سو ثابت ہوا کہ ان افلاک کے اوپر ایک موثر ہے جس کی تاثیر متجدد ہوتی رہتی ہے اور وہی مطلوب ہے۔ جب ان لوگوں نے اس بات کو ثابت نہ کیا تو فلک اور حوادث کی حرکت کے لیے کسی فاعل کے ہونے کو معطل ٹھہرایا اور یہ تعطیل افعالِ عباد کے لیے کسی محدث ہونے کی تعطیل سے بھی بڑی ہے۔ پھر ان لوگوں نے فلک کو فاعل مستقل قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ان قدریہ نے حیوان کے بارے میں یہ مقرر کیا ہے وہ بطریق استقلال حرکت کرتا ہے نہ کہ ہر حرکت کے وقت اللہ اس میں ایسی قدرت کو پیدا کرتا ہے جو اس حرکت کے مقارن ہو۔ کیونکہ ان کے نزدیک ایک فلک سے دوسرا فلک حادث ہوتا ہے اور دوسرے فلک کی شرط پہلے فلک کا ختم ہو جانا ہے۔ جیسے وہ شخص جو ایک مسافت کو رفتہ رفتہ طیکرتا ہے۔ لیکن یہ مسافت طے کرنے والا، دوسری مسافت کو اس قوت و ارادہ کے ساتھ طے کرتا ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے۔ سو فاعل کے لیے ارادہ و قوت کا تجدد ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے ایک کے
Flag Counter