Maktaba Wahhabi

153 - 645
سلطان کا شریک نہیں ہو جاتا۔ تیسرا جواب :....آیت قرآنی ’’وَاللّٰہُ خَلَقَکُم ‘‘کا جواب یہ ہے کہ اس میں ان بتوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جن کو وہ خود ہی گھڑا کرتے تھے، ان بتوں کی مذمت میں فرمایا: ﴿ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات:۹۵۔ ۹۶) ’’کیا تم ان کو پوجتے ہو جن کو تراش لیتے ہو، حالانکہ تم اور تمہارے اعمال اﷲ نے پیدا کیے ہیں ۔‘‘ شیعہ مصنف نے قائلین تقدیر کے صرف چند دلائل بیان کیے ہیں [ اور ان کے دلائل کو مفصل ذکر نہیں کیا۔] بایں ہمہ تین دلائل کا شیعہ کے پاس کوئی صحیح جواب نہیں : پہلی دلیل کے معقول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص یہ دلیل پیش کرتا ہے، وہ یہ نہیں کہتا کہ جب فعل واجب ہوجاتا ہے تو قدرت باقی نہیں رہتی، اس کے برخلاف عام اہل سنت کا قول ہے کہ بندے میں قدرت پائی جاتی ہے،یہ اکثر اہل سنت کا مذہب ہے۔ حتیٰ کہ غالی مثبتین قدر کا بھی؛ جیسے اشعریہ؛ وہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ بندے کو قدرت حاصل ہے۔ اور اس مذکورہ دلیل سے ابو عبداللہ رازی رحمہ اللہ وغیرہ نے حجت پکڑی ہے۔ وہ اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ وہ جبریہ عقیدہ کے قائل ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود کہتے ہیں کہ بندے کو قدرت حاصل ہے۔ اگرچہ ان کا اس امر میں اختلاف ہے کہ یہ قدرت اپنے مقدور میں موثر ہے، یا اس کی بعض صفات میں موثر ہے، یا اس کی سرے سے کوئی تاثیر ہی نہیں ۔ ابو الحسین بصری اوردیگر معتزلہ کا قول ہے کہ فعل میں صرف قدرت کافی نہیں ؛ بلکہ یہ داعی پر موقوف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قادر مختار محض قدرت سے ترجیح نہیں پیدا کر سکتا۔ بلکہ داعی کے ذریعے جو قدرت کے مقارک ہو۔ جیسا کہ اکثر مثبّتین تقدیر کا قول ہے ؛ وہ کہتے ہیں : رب تعالیٰ محض قدرت سے ترجیح اختیار نہیں کرتا بلکہ قدرت کے ساتھ ارادہ کے ذریعے ترجیح پیدا کرتا ہے۔ ائمہ اربعہ کے اکثر اصحاب کا یہی قول ہے۔ اصحاب احمد میں سے قاضی ابوخازم کا بھی یہی قول ہے۔ گزشتہ میں مذکور ہو چکا ہے کہ اس باب میں متوسط قول یہ ہے کہ قدرت کو تاثیر ہے جو اسباب کی مسببات میں تاثر کی خبر میں سے ہے۔ البتہ اسے خلق اور ابداع کی تاثیر نہیں اور نہ اس کا وجود اس کے عدم کے جیسا ہے۔ اس دلیل کی توجیہ یہ ہے کہ قادر کے لیے بلا مرجح کے دو میں سے ایک مقدور کو ترجیح دینا ممتنع ہے۔ وہ اس لیے کہ جب فعل اور ترک دونوں کی قادر کی طرف نسبت یکساں ہو گی تو دو متماثلین میں سے ایک کی دورسے پر ترجیح بلا مرجح ہو گی اور یہ بات عقل بدیہہ کے نزدیک ممتنع ہے۔ جس کی تفصیل اپنے مقام پر موجود ہے۔ جہاں اس شخص کی خطا کو بیان کیا گیا ہے جو اس بات کا گمان رکھتا ہے کہ قادر دو مقدور متماثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے۔اور یہ مرجح بندے کی طرف سے نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس مرجح میں قول بالکل ویسے ہی ہے جیسے بندے کے فعل میں ۔علاوہ ازیں اس امر سے بھی مذکورہ بالا دلیل کی تائید ہوتی ہے کہ صاحب قدرت کا مقدور کسی مرجّح کے بغیر ترجیح نہیں پا سکتا، یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہ مرجّح بندے میں نہیں پایا جاتا، لہٰذا اس کا من جانب اﷲ ہونا متعین ہوا، یہ بھی ظاہر ہے کہ مرجّح تام کے موجود
Flag Counter