Maktaba Wahhabi

151 - 645
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْo غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo﴾ (الفاتحۃ: ۶۔۷) ’’ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں ۔‘‘ کیونکہ ہدایت مشترکہ مانگنے کی بھی احتیاج نہیں ۔ مانگی تو وہ ہدایت جاتی ہے جو مہتدین کیساتھ خاص ہے اور جس نے اس کی تاویل زیادتِ ہدایت اور تثبیت سے کی ہے اور اسے جزا کہا ہے، اس کے قول میں تناقض ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے: یہ مطلوب اگر بندے کے اختیار سے حاصل نہ ہو تو اس پر ثواب مرتب نہیں ہوتا کیونکہ ثواب تو اسی فعل پر ملتا ہے جو اختیار سے کیا ہو اور اگر وہ اس کے اختیار سے ہے تو ثابت ہو گیا کہ اللہ نے اس فعل کو حادث کیا ہے جسے بندے نے اپنے اختیار سے کیا ہے۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے۔ اسی طرح رب تعالیٰ نے قرآن میں اضلال اور ہدایت کا جو ذکر کیا ہے، یہ لوگ اس کی تاویل ماتقدم کی جزا سے کرتے ہیں ۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ان لوگوں کی عام تاویلات اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہیں ہیں ۔ حالانکہ یہ جزا فعل پر فاعل کو دی جاتی ہے اور اگر وہ اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ اللہ بندے کو اس فعل اختیار پر جزا دیتا ہے جو اس نے بندے پر انعام کیا ہے تو پھر یہ بھی جائز ہو کہ وہ بندے کو اس کے طاعت کو اختیار کرنے ابتدا سے ہی انعام دے اور اگر ان کے نزدیک بندے کو اس کے فاعل بنائے جانے پر ثواب و عقاب جائز نہیں ہے۔ تو ہدایت و ضلالت پر ثواب و عقاب کو مراد لینا باطل ٹھہرے گا اور رب تعالیٰ نے جو ان باتوں کی خبر دی ہے کہ ان کی گردنوں میں طوق ڈالے جائیں گے اور ان کے آگے پیچھے آگ کی دیواریں کھڑی کر دی جائیں گی کہ یہ سب ممتنع ہو۔ حالانکہ اللہ نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ﴿اِنْ تَحْرِصْ عَلٰی ہُدٰیہُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ﴾ (النحل: ۳۷) ’’اگر تو ان کی ہدایت کی حرص کرے تو بے شک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کر دے۔‘‘ اللہ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ جسے وہ گمراہ کر دے وہ ہدایت نہیں پایا کرتا۔ غرض قرآن کریم میں ایسی متعدد آیات ہیں جو اس مضمون پر مشتمل ہیں کہ اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے اور وہی دلوں کو بدلتا ہے، جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے، وہی ہدایت والے پر ہدایت کا انعام کرتا ہے۔ غرض یہ بڑی طویل بحث ہے جس کا استقصاء اس مقام پر مشکل ہے۔ اسی طرح قرآن میں یہ مضمون بھی ہے کہ رب تعالیٰ کی صفت خلق عام ہے۔ ارشاد ہے: ﴿اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الرعد: ۱۶) ’’اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ یہ آیات بتاتی ہیں کہ وہ فعال لما یرید ہے اور یہ کہ اگر وہ چاہے تو سب کو ہدایت دے دے۔اس طرح کی دیگر
Flag Counter