Maktaba Wahhabi

142 - 645
تو مرجوحیت کے حال میں بدرجہ اولیٰ ممتنع ہو گا۔ تو جب مرجوح ممتنع ہوا تو راجح واجب ہوا۔ کیونکہ نقیضین سے خروج نہیں ہوتا اور یہ بعینہٖ جبر کا قول ہے۔ کیونکہ مرجح کے حصول کے وقت فعل کا وجود واجب ہے اور مرجح کے عدم کے وقت اس کا وجود ممتنع ہے۔ سو ثابت ہوا کہ جبر کے معاملہ میں ابو الحسین زبردست غالی معتزلی ہے۔ گو کہ بظاہر وہ خود کو عظیم غالی معتزلی ہے (نہ کہ جبری)۔ میں کہتا ہوں کہ یہ جمہور اہل سنت اور ان کے ائمہ کا قول ہے اور اس کے قریب قریب ابوالمعالی جوینی اور قاضی ابوخازم بن قاضی ابویعلی کا اور کرامیہ کا قول ہے اور یہ اس قول کی حقیقت ہے کہ اللہ بندے کے فعل کا خالق ہے اور اسباب کو ثابت کرنے والے جمہور اہل سنت کا بھی یہی قول ہے، جو کہتے ہیں کہ بندے کی قدرت کو فعل میں تاثیر ہے اور جو اس تاثیر کو نہیں مانتا جیسے اشعری تو جب وہ وجوب کی تفسیر وجوبِ عادی سے کترا ہے تو یہ ممتنع نہیں اور جب اس کی تفسیر وجوب عقلی سے کرتا ہے تو ممتنع ہوا۔ رہا لفظ جبر تو اس میں نزاع لفظی ہے جیسا کہ گزرا اور اس کا ظاہری لغوی معنی یہ نہیں ۔ اسی لیے اسلاف نے اس کے اطلاق پر انکار کیا ہے۔ پس جب قدریہ کہتے ہیں کہ یہ بندے کے مختار ہونے کے منافی ہے۔ کیونکہ مختار کا معنی تب ہی ہے جب وہ فعل اور ترک دونوں پر قادر ہو اور جب چاہے یہ کر لے اور جب چاہے وہ کر لے۔ ان کو یہ جواب دیا جائے گا کہ یہ مسلّم ہے، لیکن یہ کہا جائے گا کہ بندہ یا تو فعل اور ترک پر علی سبیل البدل قادر ہے یا علی سبیل الجمع؟ دوسرا قول باطل ہے، کیونکہ فاعل ہونے کی حالت میں وہ تارک نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ فعل اور ترک دونوں ضدین ہیں ، ان کا اجتماع ممتنع ہے اور قدرت ممتنع پر نہیں وہا کرتی۔ پس معلوم ہوا کہ ہمارا قول کہ وہ فعل اور ترک پر قادر ہے اس کا یہ معنی ہے کہ وہ عدمِ ترک کے حال میں فعل پر اور عدمِ فعل کے حال میں ترک پر قادر ہے۔ اسی طرح یہ قولِ قائل ہے کہ قادر چاہے تو فعل کرے اور چاہے تو نہ کرے کہ یہ قول علی سبیل البدل پر محمول ہے کہ بندہ فعل اور ترک دونوں پر بیک وقت قادر نہیں ہو سکتا۔ بلکہ فعل کی مشیئت کے حال میں ترک کا مرید اور ترک کی مشیئت کے حال میں فعل کا مرید نہیں ہو سکتا۔ جب یہ بات ہے تو وہ قادر جو چاہے تو فعل کرے اور چاہے تو ترک کرے کہ جب وہ فعل کو چاہتا ہے اور قدرتِ تامہ بھی ہوتی ہے تو اس حال میں فعل کا وجود واجب ہوتا ہے اور فعل کے وجود کے حال میں اس کا ترک کا مرید ہونا ممتنع ہے اور وہ فعل کے ساتھ ترک کے وجود پر قادر ہے۔ بلکہ اس کی فعل پر قدرت بایں معنی ہے کہ وہ فعل کے بعد اس کا تارک ہو گا۔ لہٰذا وہ فعل کے وجود کے دوسرے زمانہ میں ترک پر قادر ہو گا نہ کہ فعل کے وجود کے حال میں ۔ جب قائل یہ کہتا ہے کہ یہ اس بات کو مقتضی ہے کہ فعل واجب ہو نہ کہ ممکن۔ سو اگر تو اس کی مراد یہ ہے کہ وہ فعل فی نفسہ ممکن ہونے کے بعد غیر کے ذریے واجب ہوا تو یہ بات برحق ہے۔ جیسا کہ وہ عدم کے بعد وجود میں آیا اور اس کا وجود کے حال میں معدوم ہونا ممتنع ہے۔
Flag Counter