Maktaba Wahhabi

378 - 406
گا....حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:اے ابو ہریرہ! تم جانتے ہو کہ تین رات تم کس سے گفتگو کرتے رہے ؟ ابو ہریرہ نے جواب دیا: نہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’وہ شیطان تھا۔‘‘ (بخاری ) کہتے ہیں :’’ ذراسی بھی عقل رکھنے والا ایسی خرافات سننا گوارا نہیں کرتا ۔ابو ہریرہ اپنے شیطان کے بارے میں ہم سے کہیں غریب روایات بیان کرتا ہے۔ جب کبھی بھی ابو ہریرہ روایت کرنے میں منفرد ہوتا ہے، وہ اچھوت قسم کی کہانیاں نقل کرتا ہے، کبھی خیال کرتا ہے کہ شیطان اپنے بچوں کے لیے کھانا چراتا ہے، اور کبھی وہ ایسی گوز مارتا ہے جس کو کانوں سے سن سکتے ہیں اور اس طرح کے دیگر قصے بھی ہیں ، جن کے سننے سے روشن ذہن اور سلیم عقل انکار کرتی ہے، عقلی بے راہ روی اور جانچ پر کھ کے ضعف سے اللہ کی پناہ....الخ جواب: ....امامیہ کی کتابوں میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : ’’ میرے پاس ایک تھیلی تھی۔ جس میں کھجوریں تھیں ۔ بلائیں ایک نور کی شکل میں آتیں اور اس تھیلی سے کھجوریں نکال لیتیں ۔ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جاؤ، جب وہی بلاپھر آئے تو تم کہنا: بسم اللہ!چلیں ، تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا ہے۔‘‘ کہتے ہیں : میں نے اسے پکڑلیا، اس نے قسم اٹھائی کہ وہ دوبارہ نہیں آئے گی۔ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور کہنے لگی: میں آپ کو ایک چیز یاد دلاتی ہوں ، اور وہ آیت الکر سی ہے۔ اسے اپنے گھروں میں پڑھا کرو۔ کوئی شیطان یا دوسری چیز قریب بھی نہیں آئے گی۔ پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تیرے قیدی نے کیا کیا؟ تو اس صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کچھ بتایا، جو اس نے کیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا :’’وہ جھوٹا ہے، مگر اس نے صحیح کہا۔‘‘[1] یہ بھی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب مؤذن اذان دیتا ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے، اور اس کی گوز نکل رہی ہوتی ہے۔‘‘[2]
Flag Counter