Maktaba Wahhabi

304 - 406
ابن معین رحمہ اللہ نے کہا ہے: یہ قوی راوی نہیں ہے اس کا حافظ آخری عمر میں بدلہ گیا تھا۔ [1] ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے:یہ ضعیف راوی ہے۔ اس کا حافظ آخری عمر میں بدلہ گیا تھا۔ جب کہ متن کے لحاظ سے اس میں نکارت پائی جاتی ہے، اس کے بذیل اسباب ہیں : ۱۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صراحت کے ساتھ مہر میں غلو سے نہی صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔ ابو داؤد رحمہ اللہ نے ابو العجفاء اسلمی سے روایت کیا ہے۔[2] آپ مہر میں بہت زیادہ غلو سے منع کرتے تھے اس سے دوسری روایت کا بطلان ثابت ہو گیا۔ ۲۔اس روایت میں دوسری صحیح اور صریح نصوص کی مخالفت پائی جاتی ہے، جن روایات میں مہرمیں غلو سے اجتناب کی ترغیب، اور اس معاملہ میں نرمی برتنے کا حکم ہے، ان میں سے ایک روایت جو کہ سنن ابی داؤد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرمایا:’’ بہترین نکاح وہ ہے جس میں آسانی ہو۔‘‘[3] امام حاکم اور ابن حبان رحمہ اللہ نے موار دالظمان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، آپ فرماتی ہیں : ’’ رسول اللہ نے مجھے سے فرمایا: کون ہے جو عورت پر احسان کر کے اس کا معاملہ آسان کرے، اور مہر کم دے۔‘‘ [4] صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا کہ: ’’ میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے۔‘‘ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:’’ کیا تو نے اسے دیکھا ہے کیونکہ انصاری عورتوں کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے۔‘‘ اس نے کہا:’’ میں نے اسے دیکھا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تو نے اس سے کتنے مہر پر شادی کی‘‘؟ اس نے کہا:’’ چار اوقیہ پر۔‘‘ تو اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’چار اوقیہ پر گویا کہ تم اس پہاڑ سے چاندی کھود لاتے ہو جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ البتہ عنقریب ہم تمہیں ایک قافلہ میں بھیجیں گے تاکہ تجھے اس سے کچھ مل جائے۔‘‘[5]
Flag Counter