Maktaba Wahhabi

278 - 406
ساتھ مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اطاعت گزاری نیکی کے کاموں میں ہے۔‘‘[1] اور ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہو سکتی۔‘‘[2] اور فرمایا:’’ جو کوئی تمہیں اللہ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات نہ مانو۔‘‘[3] شبہ: ....حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ’’میں تم سے بہتر نہیں ہوں تم میں علی رضی اللہ عنہ موجود ہیں ۔‘‘ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ سے کہا تھا، میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں ، اور تم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود ہیں ، اگر آپ کی یہ بات سچی ہے تو آپ کسی بھی صورت امامت کے لائق نہیں تھے اور اس لیے کہ فاصل کی موجودگی میں مفضول امام نہیں بن سکتا اور اگر آپ جھوٹے تھے، تو پھر بھی کاذب اور فاسق امامت کا مستحق ہرگزنہیں ہو سکتا۔ جواب:.... مان لیا جائے کہ آپ نے ایسا کچھ فرمایا ہے، تو یہ امام سجاد ہیں ، جو کہتے ہیں : ’’میں وہ ہوں جس نے اپنی عمر گناہوں میں تباہ کر دی.... الخ‘‘ اگر آپ سچے ہیں ، تو اس کلام کی روسے آپ امامت کے مستحق نہیں اس لیے کہ گناہوں کا مرتکب امام نہیں بن سکتا، یہ عصمت کے منافی ہے، اگر آپ جھوٹے ہیں جیسا کہ اوپر گزرا ہے، تو جو جواب تمہارا ہوگا، وہی جواب ہمارا ہوگا۔‘‘ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول کہ مجھے خلافت سے معاف رکھو! بعض کہتے ہیں کہ’’آپ نے کہا تھا، مجھے خلافت سے معاف رکھو اور آپ نے امامت سے تنازل چاہا تھا، لہٰذا آپ امامت کے اہل نہ تھے۔‘‘ جواب:.... اگر اس کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس کا وہی جواب دیا جائے گا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جنہوں نے شہادت عثمان کے بعد خلافت قبول نہ کی۔ مگر اس وقت جب مہاجرین وانصار کی اکثریت نے آپ کو مجبور کیا۔ جیسا کہ نہج البلاغۃمیں ہے۔ پس اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے یہ بات صحیح ثابت ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ حکومت وریاست کے طلب گارنہ تھے۔ ان کا یہ دعوی صاف جھوٹ ہے، کتب احادیث میں کوئی ایسی چیز نہیں اور نہ ہی اس کی سند معلوم ہے، اور آپ نے یہ بھی نہیں فرمایا کہ تم میں علی موجود ہیں ، بلکہ ثابت شدہ چیز یہ ہے کہ آپ نے ثقیفہ کے دن فرمایا تھا کہ ان دو یعنی عمر بن الخطاب اور ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو۔‘‘
Flag Counter