Maktaba Wahhabi

276 - 406
موافق اور اللہ تعالیٰ کی شریعت اور امور دین کے مطابق ہوں ۔ اگر میں تمہیں اس کے خلاف کسی چیز کا حکم دوں تو میری بات نہ مانو اور مجھے اس پر خبردار کرو۔ یہ عین انصاف کی بات ہے۔‘‘ جب لوگوں کی عادت یہ بن چکی تھی کہ وہ اپنی مشکلات کے حل کے لیے وحی الٰہی اور اطاعت نبی کی طرف رجوع کرتے تھے تو خلیفہ پر لازم تھا کہ لوگوں کو ان چیزوں سے آگاہ اور خبردار کرے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھیں ۔ کلینی نے جعفر صادق رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے۔ فرمایا: ’’ اور بے شک ہر مومن کے ساتھ شیطان ہوتا ہے جو اسے گمراہ کرنا چاہتا ہے۔‘‘ ایک مشہور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جس میں ہے: ’’تم میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک جن موکل ساتھی ہوتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کے ساتھ بھی ہے؟ تو فرمایا:’’ ہاں ! لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غلبہ دیا ہے تاکہ محفوظ و مامون رہوں ۔‘‘ تو جو کچھ ان لوگوں نے بیان کیا ہے اس میں طعنہ یا عیب والی بات کون سی ہے؟ مومن کو وسوسے تو آتے رہتے ہیں ، مگر وہ ان پر بیدار مغزی کا مظاہرہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ ﴾ [ الاعراف: ۲۰۱] ’’یقیناً متقی لوگوں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھوتا ہے تو وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں ، پھر یکایک وہ بصیرت والے ہوتے ہیں ۔‘‘ گھاٹے کی بات شیطان کی اتباع میں ہے، جس سے آپ بچ گئے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بڑے فضائل اور اس بات کے واضح دلائل میں سے ہے کہ آپ زمین میں سرکشی اور فساد نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی آپ حکومت کے طلب گار تھے اور نہ ہی آپ ظالم تھے۔ بلکہ بلاشک و شبہ آپ لوگوں کو اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول کی دعوت دیتے تھے۔‘‘ جو شیطان آپ کے مدمقابل آتا تھا، وہ تمام بنی آدم کے ساتھ لگا ہوا ہے اور صحیح حدیث میں ثابت ہے۔ (یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صفیہ کے ساتھ رات کے وقت میں گفتگو فرما رہے تھے اور آپ کے پاس سے بعض انصار کا گزر ہوا تو آپ نے فرمایا: آپ آرام سے چلو یہ صفیہ بنت حیی ہے،
Flag Counter