Maktaba Wahhabi

273 - 406
اس ولایت کے دوران دیگر تمام مسلمانوں کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھتے رہے اور آپ کے حکم کی ایسے ہی بجا آوری کرتے تھے، جیسے آپ کے ساتھ موجود دیگر لوگ کرتے تھے اور اس حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے حج میں منادی کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ولایت کے علاوہ دیگر ولایات میں دوسرے لوگ باہم شریک ہیں ، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات کی ولایات۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوئی ایسی ولایت تفویض نہیں ہوئی جس کی مثل ولایت دوسرے صحابہ کو نہ ملی ہو، بخلاف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے۔ ان کی ولایت ان کی خصوصیات میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر نہ ہی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا اور نہ ہی عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو۔ جہاں تک حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی آپ پر امارت کا تعلق ہے تو یہ بالاتفاق ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے اور جہاں تک حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے قصہ کا تعلق ہے تو وہ یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ایک سریہ پر امیر بنا کر بھیجا تھا، یہ غزوہ ذات السلاسل کا واقعہ ہے، جو بنی عذرہ کی طرف بھیجا گیا تھا۔ یہ لوگ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ننہال تھے۔ تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کو امیر اس لیے بنایا تاکہ ان لوگوں کے اسلام لانے کا سبب بن جائیں کیونکہ ان کے مابین قرابت داری کی وجہ سے ایسا ہونے کے امکانات تھے۔ پھر ان کی مدد کے لیے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو مبعوث فرمایا، ان کے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے علاوہ دیگر مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ ان لوگوں کو حکم یہ ملا تھا کہ ایک دوسرے کی اطاعت کریں اختلاف نہ کریں ۔ جب یہ لوگ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے کہا: میں اپنے ساتھیوں کی امامت کرواؤں گا اور تم اپنے ساتھیوں کی امامت کرواؤ۔ تو انہوں نے کہا: نہیں بلکہ تم سب کی امات میں کرواؤں گا۔ تم میری مدد کے لیے آئے ہو تو حضرت ابوعبیدہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کی اطاعت کروں اگر آپ میری نافرمانی بھی کریں گے تو میں آپ کی اطاعت گزاری کروں گا۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں ان کے ساتھ تنازع پیدا کرنا چاہتے تھے، مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ایسا نہ کیا جائے۔‘‘[1] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے اس معاملہ میں سب سے بہتر تھی۔ پس یہ تمام حضرات عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔ حالانکہ یہ بات ہر ایک جانتا تھا کہ حضرت ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ رضي الله عنهم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ یہ سب کچھ ان کی فضیلت اور اصلاح کی وجہ سے تھا۔ اس لیے کہ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ
Flag Counter