Maktaba Wahhabi

267 - 406
بطاح تشریف لائے اور ادھر ادھر سرایا مبعوث کیے اور انہیں حکم دیا کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں اور جو اس دعوت کو قبول نہ کرے اسے گرفتار کر کے یہاں لایا جائے اور جو کوئی نہ مانے اسے قتل کر دیا جائے۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں یہ نصیحت کی تھی کہ جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالیں تو اذان دیں ۔ اگر وہ لوگ اذان کو قبول کر لیں تو ان سے ہاتھ روک لیں اور اگر وہ اذان پر لبیک نہ کہیں تو انہیں قتل کیا جائے اور اموال پر قبضہ کر لیا جائے اور اگر وہ اسلام کی دعوت قبول کر لیں تو ان سے زکوٰۃ کے بارے میں پوچھو، اگر وہ اس کا اقرار کریں ، تو ان کی بات مان لو، اگر انکار کریں تو ان سے جنگ کرو۔ ان کے گھڑ سوار مالک بن نویرہ سردارِ بنی ثعلبہ بن یربوع کو گرفتار کر لائے۔ ان کے بارے میں سریہ میں اختلاف ہو گیا تھا۔ ان میں حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے، جنہوں نے گواہی دی تھی کہ انہوں نے اذان پر لبیک کہا اور اٹھ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔ جب اختلاف ہوا تو انہیں باندھنے کا حکم دے دیا۔ یہ بہت ہی ٹھنڈی رات تھی، اور ان کے پاس کچھ بھی سردی سے بچاؤ کے لیے نہیں تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اعلان کروایا: دَفَؤا اُسْرَاکُمْ اپنے قیدیوں کے حرارت یعنی گرمی پہنچانے کا اہتمام کرو۔ مگر لفظ ’’دفؤا‘‘ کا معنی بنو کنانہ کی لغت میں قتل کرنا تھا۔ لوگوں نے یہ سمجھا کہ آپ کی مراد انھیں قتل کرنا ہے۔ وہ گرمی پہنچانے کی مراد نہیں سمجھ سکے انہوں نے قیدیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا، ضرار بن اوزور نے مالک کو قتل کیا، جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے شور شرابہ سنا اور باہر نکلے۔ تو اس وقت تک کام ہو چکا تھا۔ تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ ہو کر رہتا ہے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے: حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کو بلایا اور سجاح کی اتباع اور زکوٰۃ روکنے پر اسے ڈانٹا اور کہا کیا تم نہیں جانتے کہ نماز اور زکوٰۃ دونوں کا یکساں حکم ہے۔ تو مالک نے کہا: تمہارے ساتھی کا یہ خیال ہے۔ (یہ اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا) تو آپ نے کہا: کیا وہ ہمارے ساتھی ہیں ، تمہارے ساتھی نہیں ؟ اے ضرار! اٹھو اور اس کی گردن مار دو۔ پس اس کی گردن مار دی گئی۔ ٭.... تنقید نگار کا یہ دعویٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے کہا: اے اللہ کے دشمن! ایک مسلمان کو تم نے قتل کیا اور اس کی بیوی کے ساتھ شب باشی کی۔ اللہ کی قسم! ہم تمہیں پتھر مار کر رجم کریں گے اور پھر اس کلام کو تاریخ الطبری کی کی طرف منسوب کرنا، یا پھر تاریخ ابی الفداء یا تاریخ یعقوبی کی طرف منسوب کرنا یہ ایک واضح کمزوری ہے۔ اس لیے کہ ایسے جملے کے تاریخ یعقوبی یا الاصابہ میں صرف
Flag Counter