Maktaba Wahhabi

265 - 406
وقت تک فیصلہ نہیں کر سکتا جب تک اہل بیت میں قائم کا ظہور نہ ہو جائے۔ جب اللہ تعالیٰ اہل بیت میں قائم کو مبعوث فرمائیں گے تو وہ ان کے مابین اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ شادی شدہ زانی کو سنگسار کریگا اور زکوٰۃ روکنے والے کی گردن مار دے گا۔‘‘[1] تو پھر یہ تنقید نگار مانعین زکوٰۃ سے قتال کے مسئلہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر کیسے اعتراض کر سکتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جنگ ویسے ہی نہیں تھی بلکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تھی۔ ٭.... اعتراض: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شروع میں اس معاملہ میں اشکال کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ آپ ان لوگوں کو کیسے قتل کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( أمرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا: لا إلٰہ إلا اللّٰه فإذا قالوا، عصموا منی دمائہم و أموالہم إلا بحقہا وحسابہم علی اللّٰه۔)) قال أبوبکر رضی اللّٰهُ عنہ : ألم یقل بحقہا؟ فإن الزکوۃ من حقہا۔ واللّٰه ! لو منعونی عقالاً کانوا یؤدونہا إلی رسول اللّٰهِ صلي ا للّٰه عليه وسلم لقاتلتہم علی منعہا۔ قال عمر رضی اللّٰهُ عنہ فواللّٰہ ما ہو إلا أن رأیت اللّٰه قد شرح صدر أبی بکر رضی اللّٰهُ عنہ : فعرفت أنہ الحق ۔ [متفق علیہ] ’’ میں حکم دیا گیا ہوں کہ لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لاإ ِلہ إِلا اللّٰہ کہیں جب وہ یہ کلمہ کہہ دیں تو مجھ سے اپنا جان ومال بچالیں گے مگر اس کے حق کے عوض اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ’’ مگر اس کلمہ کے حق کے ساتھ ۔‘‘بیشک زکوٰۃ بھی اس کلمہ کا حق ہے۔و اللہ! اگر انہوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیتے تھے تو اس کے نہ دینے پر میں ان سے جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اللہ کی قسم ! میں نے دیکھا کہ اللہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ حق کے لیے کھول دیا تھا۔ تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔‘‘ آپ ظاہر کلام سے عموم پر استدلال کر رہے تھے اور اس حدیث کے آخری جملہ کی طرف آپ نے نہیں دیکھا جس میں ہے: مگر اس کے حق کے ساتھ۔ جب یہ کلام حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر واضح ہوا تو آپ سمجھ گئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے درست ہے۔ اسی لیے ان جنگوں میں آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔
Flag Counter