Maktaba Wahhabi

225 - 406
میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے اور سناؤں میں ؟ فرمایا:’’ ہاں ! مجھ کو دوسرے کی زبان سے سننا اچھا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ تو میں نے سورت نساء کی تلاوت شروع کی اور جس وقت اس آیت پر پہنچا ﴿ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾[النساء:۴۱] ’’ پس کیا حال ہوگا کہ جب ہم ہرامت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر گواہ بنائیں گے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہوگئی آنسو گرنے لگے اور فرمایا:’’ بس کرو۔‘‘ [1] کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے اور یہ آپ کی ایمانی قوت کی بھی دلیل ہے۔ یہ حضرت مریم ہیں ، کہ ان کی بات بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کلام کی طرح تھی، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دی ہے ، جب انہوں نے کہا: ﴿ يَالَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا ﴾ [مریم:۲۳] ’’کہنے لگی: اے کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوتی۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : نسیا منسیا کا معنی یہ ہے کہ مجھے پیدا ہی نہ کیا گیا ہوتا اور میں کوئی چیز ہی نہ ہوتی۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس کا معنی یہ ہے کہ ایسی ناقابل تذکرہ اور غیر معروف ہوتی۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس سے مراد گرا ہوا بچہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ جنگ جمل سے واپسی پر آپ فرمایا کرتے تھے : ’’ اے حسن ! اے حسن ! تیرے باپ کا یہ خیال نہیں تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا اور تیرے باپ کویہ بات پسند تھی کہ وہ اس دن سے بیس سال پہلے مر گیا ہوتا ۔‘‘ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’ کاش کہ میں کوئی درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا۔‘‘[2] تو کیا یہ تمام حضرات اس طرح کی باتیں کہنے کی وجہ سے قابل مذمت ٹھہرتے ہیں ؟ اگر ان حضرات پر کوئی قدح نہیں کی جا سکتی تو پھر صرف حضرات شیخین پر ہی اس کلام کی وجہ سے قدح کیوں ؟ پھر یہ تنقید نگار اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو اس کے مومن بندوں کو خوشخبری سناتی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
Flag Counter