Maktaba Wahhabi

21 - 406
کرتے تھے جن سے وہ اپنے مذہب کی نصرت و تائید کرسکیں ۔ جب کہ اس کے ساتھ ساتھ فضائل اعمال میں ترغیب او رجہنم سے تخویف کے بارے میں بھی احادیث گھڑی گئی ہیں اور ان کے علاوہ بھی احادیث گھڑنے کے کئی ایک ایسے اسباب ہیں جن پر ماہرین اصول حدیث کا اتفاق ہے۔ فقہ و تفسیر تاریخ و سیرت اور مغازی و احادیث کی کتابوں میں ان روایات کے پائے جانے کے بہت برے اثرات ان عقائد کے پھیلنے میں ہوئے جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ باطل مذاہب اور فرقوں کے ظہور و انتشار میں ان روایات کا بنیادی کردار رہا ہے کیونکہ ان میں سے اکثر کی بنیادیں ان موضوع روایات پرہی ہوا کرتی تھیں ۔ کیونکہ ایسے لوگ جھوٹ بولنے میں ذرا بھی باک نہیں کرتے تھے جو چیز بھی ان کی خواہش نفس اوررائے کے مطابق دل کو لگتی اسے حدیث بنا لیتے۔ پہلے وقت کے مسلمان اسناد کے بارے میں نہیں پوچھا کرتے تھے۔ حتی کہ جب فتنوں کا ظہور ہوا تو وہ راوی کے متعلق پوچھنے لگے۔ اگر وہ پابند سنت [اہل سنت]ہوتا تواس کی روایت قبول کرلیتے اور اگر اہل بدعت میں سے ہوتا تو اس کی روایت کو قبول نہ کرتے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا ائمہ کرام رحمہم اللہ تک متصل اسناد معرفت شریعت اورمعرفت احکام کا وسیلہ بن گئیں ۔ توراوی حدیث کے متعلق تحقیق میں اتنا تشدد بھی برتا گیا حتی کہ کہا جانے لگا: کیا تم اس کی شادی کروانا چاہتے ہو؟ علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ علم دین ہے پس دیکھوکہ تم اپنا دین کس سے لے رہے ہو۔‘‘ [1] پس اس گروہ اولین کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ حدیث بیان کرنے سے پہلے اس کی سند بیان کیا کرتے تھے۔ علامہ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’چھت پر سیڑھی کے بغیر چڑھنا ممکن نہیں ۔‘‘ [2] امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’علم اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب اس کی اسناد ختم ہوجائیں ۔‘‘[3] امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بیشک صحتِ حدیث کا علم اس کی سند کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘[4]
Flag Counter