Maktaba Wahhabi

202 - 406
ہے۔ اس نے منقطع سند کے ساتھ عبدالرحمن المسعودی سے روایت کیا ہے، اس نے ابن عیاش المنتوف سے روایت کیا ہے۔‘‘ [1] ابن عیاش کے حالات زندگی نہیں ملتے۔ جبکہ عبدالرحمن المسعودی کے شیعہ ہونے کی وجہ سے اس کی روایت سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ اس معترض نے منقطع سند والی روایت سے احتجاج کیا ہے اور ابو مخنف شیعہ کے کلام کی بنیاد پر ایک ثقہ شخصیت حضرت ابو بردہ کو ضعیف کہا ہے۔ ان کے بارے میں علماء جرح و تعدیل اور ماہرین علوم حدیث نے کہا ہے: الامام، الفقیہ، الثبت .... وہ ائمہ مجتہدین میں سے ایک تھے۔ ابن سعد نے کہا ہے: آپ ثقہ او رکثیر الحدیث تھے۔ العجلی نے کہا ہے: آپ کوفہ کے ثقہ تابعی تھے۔[2] پھر اس معترض نے عبدالملک بن عمیر کو ضعیف کہا ہے، وہ کہتا ہے: عبدالملک مدلس اور بہت زیادہ مضطرب الحدیث تھا۔ ان علماء اعلام کے متعلق جو کچھ نقل کیا ہے، وہ ایک حد تک درست ہے، مگر کلام کا آخری حصہ ہضم کر گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عبدالملک بن عمیر کا حافظہ آخری عمر میں بدل گیا تھا۔ اس لیے کہ اس نے ایک سو تین (۱۰۳) سال کی عمر پائی ہے اوریہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ جو کوئی اس عمر تک پہنچے اور اس کا حافظہ نہ بدلے۔ لیکن اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم اس کی تمام روایات کو سمندر میں پھینک دیں ؟ یقیناً ایسا تو کوئی نہیں کہہ سکتا۔ پس درایں صورت اس کے کبار تلامذہ اور صغار تلامذہ میں فرق کیا جائے گا۔ پس ان کے بڑے شاگردوں کی روایات صحیح اور ثقہ ہوں گی جبکہ چھوٹے شاگردوں کی روایات محل نظر ہوں گی۔ یہاں پر عبدالملک بن عمیر سے روایات کرنے والا زائدہ بن قدامہ ہے۔ اس کا شمار بڑے تبع تابعین میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے۔[3] سابقہ کلام کے ساتھ ساتھ علمی امانت کا تقاضا ہے کہ ان علماء کا بھی ذکر کیا جائے جنہوں نے عبدالملک بن عمیر کو ثقہ کہا ہے۔ اب علماء کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ بہت سارے علماء نے عبدالملک کو ثقہ کہا ہے۔ ان علماء میں العجلی، ابن معین، نسائی، ابن غایر شامل ہیں ، ابن مہدی کہتے ہیں : امام ثوری کو عبدالملک کے حافظہ پر تعجب ہوتا تھا۔ امام احمد بن نے کہا ہے: مضطرب الحدیث ہے، حفاظ کا اس کے بارے میں اختلاف ہے۔‘‘ ابن البرقی نے ابن معین سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے: عبدالملک ثقہ ہے۔ ایک یا دو احادیث میں اس سے غلطی ہوئی ہے۔ علامہ ابن حجر نے کہا ہے: ان کی روایات سے جماعت (اصحاب
Flag Counter