Maktaba Wahhabi

142 - 406
’’یقیناً اللہ مؤمنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، تو اس نے ان کے دلوں کی بات جان لی ؛اور ان پر سکینت نازل کی اورانھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی اور بہت سی غنیمتیں ، جنھیں وہ حاصل کریں گے اور اللہ تعالیٰ سب پر غالب، کمال حکمت والے ہیں ۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرنے والوں کی تعداد ۱۴۰۰ تھی۔ [1] صحیح مسلم میں ام بشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا....‘‘ [2] کتاب و سنت کی صریح نصوص کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صحابہ سے راضی ہو گئے تھے اور ان دلوں میں سکینت نازل فرمائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے اور جہنم سے نجات کی خبر دی ہے۔ پھر اس کے بعد بھی صحابہ کرام پر طعن کرنا کتاب و سنت کی صریح نصوص کی تکذیب اور اللہ اور اس کے رسول کی بات کو ردّ کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسے کافر کی تکفیر میں علماء نے بھی توقف نہیں کیا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر یا فاسق کہے، تو اس کا یہ قول کتاب و سنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے۔ صحیحین میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان صلح حدیبیہ کا معاہدہ تحریر کیا۔ آپ نے معاہدہ میں یوں لکھا: ’’یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ۔‘‘ کفار قریش کہنے لگے کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے ۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو روکتے ہی کیوں ۔‘‘آپ تو بس محمد بن عبداللہ ہیں ۔‘‘ حضرت نے فرمایا کہ:’’ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں ۔‘‘ پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ’’رسول اللہ کا لفظ مٹا دو۔‘‘ انہوں نے کہا کہ:’’ ہرگز نہیں ؛اللہ کی قسم !میں یہ لفظ کبھی نہیں مٹا سکتا ۔‘‘[3] اور بعض روایات میں ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اللہ کی قسم! میں اسے کبھی بھی نہیں مٹاؤں گا۔‘‘[4] جو کچھ یہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ثابت ہے، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مراجعہ و تکرار کی نظیر ہے
Flag Counter