Maktaba Wahhabi

110 - 406
اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ﴾ [الحشر: ۹] ’’ جو ان کے پاس مہاجر آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا﴾ [الفتح :۲۹] ’’آپ انہیں دیکھیں گے کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ لَقَدْ تَابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ [التوبۃ: ۱۱۷] ’’اللہ نے نبی اورمہاجرین و انصار کے حال پر توجہ فرمائی جنہوں نے تنگی کی گھڑی میں نبی کا ساتھ دیا اس کے بعد کہ ان میں سے بعض کے دل پھر جانے کے قریب تھے پھر ان کی توبہ قبول فرمائی بیشک وہ ان پر شفقت کرنے والا مہربان ہے۔‘‘ ہاں جب اللہ تعالیٰ نے ان کی سچی نیتوں اور سچی توبہ کو جان لیا توان کی توبہ قبول فرما لی۔ ٭اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان حضرات کو ظاہری و باطنی خیر و بھلائی کی خصوصی توفیق حاصل تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ اس نے ان حضرات کی توبہ قبول فرما لی ہے اور وہ ان حضرات سے راضی ہوگیا ہے۔اور ان حضرات سے جنت کا وعدہ کر لیا ہے۔ ٭ان تمام سابقہ باتوں کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کے لیے دعاء و استغفارکریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اکرام بجالانے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنے اور ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔انہیں گالی دینے یا ان کے ساتھ حسد و بغض رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان سے محبت کو ایمان کی نشانی قرار دیا ہے اور ان سے بغض و نفرت کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔ ٭یہ ایک طبعی بات ہے کہ جب یہ تمام باتیں اس دور میں موجود تھیں جن کا ذکر کیا گیا ہے تو پھر لازمی ہوتا ہے کہ اس دور کے لوگ خیر القرون کے لوگ ہوں اور اس امت کے لیے باعث برکت و امان ہوں ۔
Flag Counter