Maktaba Wahhabi

52 - 379
قیصر نے عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی ، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں جس دین پر ہوں اسے چھوڑ نے سے مرنا ہزار درجہ بہتر سمجھتا ہوں ، قیصر نے حکومت کا لالچ دیا ، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پھر وہی جواب دیا ، قیصر نے غضبناک ہوکر کہا، میں تمہیں قتل کردوں گا ، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جو چاہو کر لو، قیصر نے ایک بڑی دیگ منگوا کر اس میں تیل ڈلوایا، نیچے آگ جلانے کا حکم دیااور دو مسلمان قیدیوں کو باری باری اس میں ڈالنے کا حکم دیا ، دونوں قیدی تیل میں گرتے ہی اپنے رب حقیقی سے جاملے، قیصر نے پھر حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی، انہوں نے پھر وہی جواب دیا، قیصر نے آپ کو بھی تیل میں ڈالنے کا حکم دیا، جلاد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو تیل میں ڈالنے لگا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ، مردود بادشاہ نے سمجھا کہ شاید موت کے ڈر سے رورہے ہیں ، چنانچہ بادشاہ نے انہیں اپنے پاس بلایا اورپھر عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم غلط سمجھ رہے ہو، میں تو اس لیے رورہا ہوں کہ میرے پاس صرف ایک ہی جان ہے، کاش! میرے پاس ہزار جانیں ہوتیں تو ہر جان کو اسی طرح اللہ کی راہ میں قربان کردیتا ، قیصر یہ جواب سن کر انگشت بدنداں رہ گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کی استقامت اور جرأت سے اس قدر متاثر ہوا کہ آپ کو آپ کے ساتھیوں سمیت رہا کرنے کا حکم دے دیا ۔ ۲۔ حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے، ان کا مالک امیہ بن خلف دھوپ کی شدید تمازت میں لٹاکر بھاری پتھر ان کے سینے پہ رکھ دیتا کہ جنبش نہ کر سکیں اور کہتا جب تک دین محمد کا انکار کرکے لات وعزیٰ کی عبادت نہ کرو گے اسی طرح درد ناک سزا میں مبتلا رہوگے، لیکن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کاجذبۂ ایمانی اور اللہ سے محبت ووارفتگی دیکھیے کہ اس کے جواب میں ’’احد، احد‘‘ کا نعرہ لگاتے ، کفار نے ان پر اتنے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جس کے احساس سے رونگٹے
Flag Counter