Maktaba Wahhabi

338 - 379
سے دل خواہشات نفس کا اسیر ہوجاتا ہے۔خواہشات نفس دل پر حکومت کرنے لگتی ہیں ، اوردل کا امتحان بہت سخت ہو جاتا ہے۔اور فتنہ سے لبریز ہو جاتا ہے۔ یہ فتنہ انسان کے اور کامیابی و نجات کی راہوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، اور راہ حق سے روک لیتا ہے، اور عشق کے بازار میں انسان اپنے نفس کو انتہائی گھٹیا داموں بیچ ڈالتا ہے؛جس کا معاوضہ سب سے ردی قسم کا ہوتا ہے جوجنت کے کمروں کے بدلہ میں لیا جاتا ہے۔چہ جائے کہ جو چیزیں اس سے بھی بڑھ کر ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور اس کی قربت کے علاوہ دوسری نعمتیں ہیں ۔ عشق اس ذلیل و خسیس محبوب سے ہی سکون پاتا ہے جس کی تکلیف اس کی لذت سے کئی گنا زیادہ ہے، اور اس محبوب کا وصل اور حصول اسے نقصان پہنچنے کے سب سے بڑے اسباب میں سے ہے۔ کتنے ہی ایسے محبوب ایسے ہوتے ہیں کہ جو بہت جلد ہی بدل جاتے ہیں ، اور دشمن بن جاتے ہیں ، اور جب بھی ممکن ہوتا ہے تو اپنے چاہنے والے سے برأت کا اظہار کرنے لگتے ہیں ۔ گویا کہ وہ کبھی بھی اپنے عاشق کا محبوب ہی نہیں رہا۔ اگر عاشق اپنے محبوب سے اس دنیا میں لطف اندوز بھی ہوجائے تو ایک وقت آئے گا جب اسے اس کے بدلہ میں بہت بڑی تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، اور خصوصی طور پر اس وقت جب یہ دنیا کے دوست وہاں پر ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ [وہاں پر صرف متقین کی آپس میں دوستی ہی کام آئے گی ؛ جو کہ تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہو]۔ ہائے افسوس و حسرت ہے اس محبوب پر جس نے اپنے سچے محبوب یعنی اللہ تعالیٰ خالق و مالک کو چھوڑ کر اپنے نفس کو چند کھوٹے ٹکوں کے بدلے ، بہت جلدی ملنے والے معاوضہ پربیچ دیا۔ اس کی لذتیں تو ختم ہوگئیں ، مگر لذتوں کا عذاب باقی رہ گیا۔ نفع بہت جلد ہی جاتا رہا ، اب نقصان ہی نقصان باقی ہے۔ شہوات جاتی رہیں ، شقاوت باقی رہ گئی۔ نشہ ختم ہوگیا حسرت و افسوس رہ گئے۔ ہائے افسوس ! اس رحمان کی رحمت! جس نے اس کے لیے دو حسرتیں جمع کردیں ۔ ایک تو بڑے اور اعلیٰ محبوب اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کے چھوٹ جانے پر
Flag Counter