Maktaba Wahhabi

221 - 379
خبررساں ، یہ ساری چیزیں اسی تعلیم کی مرہون منت ہیں ، ڈاکٹر، انجنیئر، مہندس ، میکانیک ، استاد، ٹیچر اور معلم یہ سب اسی تعلیم کی پیداوار ہیں ، اسلام کسی بھی جائز چیز کی تعلیم وجانکاری اور تجربہ سے نہیں روکتا، اسلام کے بتائے گئے اصول وضوابط بہت ہی وسیع پیمانے کے حامل ہیں ، اسلام کا نظریہ بہت ہی بلند وبالا ہے، ایک طرف وہ انسانوں کو قرآن وحدیث کی تعلیم سیکھنے کو کہتاہے:((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ۔))[1]کی تلقین کرتا ہے تو دوسری طرف عصری اور دنیاوی تعلیم کی طرف اس کی توجہ مبذول کراتاہے، دنیاکے جتنے علوم وفنون ہیں ہم انہیں حاصل کر سکتے ہیں اور کوئی بھی جائز ودرست صنعت وحرفت، تجارت وپیشہ اور وظیفہ ونوکری اپنا سکتے ہیں ، لیکن یہ ساری چیزیں اس وقت درست اور لائق تحسین ہوں گی، جب کہ ہم دین اسلام سے غافل نہ ہوں ۔ آج والدین کے دماغوں میں یہ وبا پھیل چکی ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم حاصل کرانے سے کیا فائدہ ہے، دنیاوی اور عصری تعلیم حاصل کرنے سے دنیاوی فائدہ ہے، اس کے ذریعے بچوں کامستقبل تابناک اور روشن ہوتاہے، لیکن دینی تعلیم حاصل کرانے سے بچے ممبر ومحراب اور مسجد ومدرسہ کی چہار دیواریوں میں مقیدہوکر رہ جاتے ہیں اور ان کی ترقی وعروج کے سارے راستے مسدود ہوجاتے ہیں ، مالی اعتبار سے کمزور ہوجاتے ہیں جو زندگی کی عظیم ضرورتوں میں سے ہے ، معاشرے میں ان کی کوئی وقعت اور قدر ومنزلت نہیں ہوتی ، وہ سدا نیچی اورذلت آمیز نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ۔ قارئین کرام !یہ ساری چیزیں ہماری اپنی دماغی پیداوار اور ذہنی افکار وخیالات ہیں ، جن کی کم ظرفی اور کم مائیگی پہ جتنے بھی خون کے تلخ آنسو بہائیں کم ہیں ، ہمارے اندر دینی سمجھ بوجھ اسی وقت آسکتی ہے جب ہم خود عقل سلیم کے مالک ہوں ، کتاب وسنت کی تعلیم سے آراستہ وپیراستہ ہوں ، دینی کتابوں کے مطالعہ سے محبت وشغف ہو ، معاشرے کے
Flag Counter