Maktaba Wahhabi

202 - 379
ہے ، اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ والدین بچوں کی کم عمری میں تعلیم وتربیت کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے ، یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی برتتے ہیں کہ بچہ ابھی نا دان، ناسمجھ اور چھوٹا ہے، اس کی کیا تربیت کریں ، اسے کوئی چیز سکھانے سے اس کے پلے نہیں پڑتا، حالانکہ یہ والدین کی طرف سے لاپرواہی ہے اور شاید یہ لاپرواہی صرف اس وجہ سے ہے کہ خود ان کی صحیح تربیت وپرورش نہیں ہوئی ہے، بچوں کا طفولیت کا زمانہ اتنا نازک ہوتا ہے کہ اس میں تھوڑی سی بھی لاپرواہی اس کی ساری زندگی کو تباہ وبرباد کرسکتی ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہد طفولیت میں بچے کا ذہن شیشہ کی طرح بلا نقش ونگار کے ایک دم صاف وشفاف ہوتاہے ، شیشہ پہ جو نقش ونگار بنائیں گے اس پر وہی عیاں ہوگا، بعینہ بچے کی اس کم عمری میں جیسی تعلیم وتربیت کریں گے وہی چیزیں شیشہ کی طرح اس کے ذہن ودماغ میں ثبت وراسخ ہوجائیں گی، اگر والدین اس چیز کو ذہن میں رکھیں تو ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اپنے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت سے غفلت وسستی نہیں برت سکتے ہیں ، کیونکہ یہ بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے ۔ بچوں کے اندر نقالی کی صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، چونکہ وہ اچھے اور برے کے اندرتمیز نہیں کرسکتے ، اپنی عقلی کم مائیگی کی وجہ سے انہیں ہر چیز سواسیر اور ایک جیسی ہی معلوم ہوتی ہے، وہ اپنی نظروں کے سامنے جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اسے حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں اور اسے صحیح ودرست سمجھ کر فوراً اس کی نقالی شروع کردیتے ہیں ، اس کی مثال حدیث کے اندر ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتاہے لیکن وہ جس گھر میں پیدا ہوتا ہے انہی کا طرز عمل اور دین اختیار کر لیتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کُلَّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہٗ یُہَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ۔)) [1]
Flag Counter