Maktaba Wahhabi

197 - 379
کے ایام بہت ہی سرعت وتیز رفتاری سے گزرتے ہیں اور اس کا احساس تک بھی نہیں ہوتا، اسی لیے دونوں اس قدر خوش باش ہوتے ہیں کہ ہر رات کوان کی یہ دلی خواہش اورآرزو ہوتی ہے کہ رات لمبی ہوجائے ، نیند کا خمار ختم ہوجائے، صبح ٹھہر جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہوں ۔‘‘ میاں بیوی ایک دوسرے کے پیار ومحبت اور شوق واشتیاق میں غرق ہوکر زندگی گزارتے ہیں اور اس پہلی والہانہ محبت کے آثار ان کی زندگی پر اس قدر قوی ومضبوط ہو جاتے ہیں کہ ان کے اثرات ونقوش دیر پا محسوس کرتے ہیں ، پھر مرور اوقات کے بعد نوزائیدہ بچے کی ولادت ہوتی ہے تو قدرے پیار ومحبت میں کمی ہوجاتی ہے اور میاں بیوی بچوں کی پرورش وپرداخت جیسی عظیم ذمہ داریوں میں محو ہوجاتے ہیں ، شوہر پہ باہری ذمہ داریوں اور بیوی پہ گھر کی اندرونی ذمہ داریوں کے بوجھ آپڑتے ہیں ۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں ، اس تمہید سے بتانا مقصود یہ ہے کہ انسان مختلف ادوار ومراحل سے گزرتاہے ، کسی وقت وہ بچہ ہوتا ہے، ماں باپ کے رحم وکرم اور محبت وشفقت کا محتا ج ہو تا ہے، پھر سن بلوغت کو پہنچتا ہے، شادی وبیاہ کے بندھن سے منسلک ہو کر میاں بیوی کی صف میں آجاتا ہے، پھر بچے پیدا ہوتے ہیں اور وہ خود کسی کے ماں اور باپ بن جاتے ہیں اور وہ ساری ذمہ داریاں ان پر آجاتی ہیں جو اس سے قبل ان کے والدین پر تھیں ، انسان ان رشتوں اور ناطوں میں موت تک بندھا رہتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ شادی کے بعد میا ں بیوی کے ذہن ودماغ کسی نئے مہمان یعنی بچہ کی آمد کے خواہاں ہوتے ہیں ، بیوی جو ماں بننے کی خواہش وآرزو لے کر خوش ہوتی ہے کہ میں اپنے ان ہاتھوں سے نرم گداز بچے کو اٹھاؤں گی، اپنے سینے سے لگاؤں گی، اپنی آغوش میں رکھوں گی، کبھی زمین پہ نہ اتاروں گی، اس کے نرم وگداز ہاتھ کو پکڑ کر اسے نہلاؤں گی، جب روئے گا تو میں اسے چپ کراؤں گی، آنکھوں سے اسے لگاکر خوشی ومسرت سے جھوم اٹھوں گی، شوہر
Flag Counter