جامعہ ماشاء اللہ ان جامعات کبیرہ کی صف میں کھڑا ہوچکا ہے جہاں تک رسائی کے لیے انہیں صدیاں لگ جاتی ہیں ، اس میں دینی وعصر ی تعلیم کا ایسا بندوبست وانتظام ہے جو دوسری جگہوں پہ خال خال ہی پایاجاتا ہے ، ایک ہی وقت میں جونیئر سکول، کلیۃ اصول الدین، معہد خدیجۃ الکبری للبنات، تحفیظ القرآن جیسے اہم شعبے قائم ہیں جس سے نونہالان قوم وملت مستفید ہورہے ہیں ، یہاں بتانا مقصود یہ ہے کہ وہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے صلہ رحمی کی مثال قائم کردی ہے ، اپنے رشتہ داروں کو مناسب جگہوں پہ رکھے ہوئے ہیں جس سے جامعہ کے تمام امور بحسن وخوبی انجام پارہے ہیں ، ساتھ ہی دوسرے باصلاحیت لوگوں کو بھی رکھے ہوئے ہیں ، جہاں وہ ایک طرف صلہ رحمی کا ثبوت دے رہے ہیں تو دوسری طرف قوم وملت کے ساتھ محبت وشفقت کا بھی ثبوت دے رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں سعادت دارین سے نوازے، آمین ۔
دوسری احادیث سے بھی پتہ جلتا ہے کہ حسن معاملہ اور حسن معاشرت میں قرابت داروں کو ترجیح دینی چاہیے، ایک حدیث میں ذکر ہے کہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک باندی کو آزاد کردیا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لو أعطیتہا أخوالک کان أعظم لأجرک۔))[1]
’’اگر تم اپنے ماموں کو دے دیتیں تو زیادہ ثواب ہوتا۔‘‘
دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الصَّدَقَۃُ عَلَی الْمِسْکِینِ صَدَقَۃٌ وَعَلَی ذِی الْقَرَابَۃِ اثْنَتَانِ صَدَقَۃٌ وَصِلَۃٌ۔))[2]
’’کسی محتاج کی مدد کرنا صرف صدقہ ہی ہے اور اپنے کسی عزیز کی مدد کرنا
|