ڈالے ، یا پھر اپنے کام کاج کی جگہ کو۔ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ شیطان کی چالوں سے بچ کررہے، اور ان مکاریوں سے دور رہے جو عاشقوں اور محبت کرنے والوں کو پٹیاں پڑھائی جاتی ہیں ۔ کسی شاعر نے بہت خوب کہا ہے :
’’ میری نظر اس کے دیدار سے لطف اندوز ہوئی تھی ؛ مگر اس کا عذاب لمبا ہوگیا، اور تمہارے لیے وہی عذاب ہے جویہ نعمتیں لے کر آئی ہیں ۔ اس نے میری طرف دیکھا ، اور دل کو اپنے تیر کا نشانہ بنالیا۔ پھر اس نے میری طرف کا قصد کا تو قریب تھا کہ میں پاگل ہوجاتا۔ اس کے لیے تباہی ہو اگر وہ دیکھے یامنہ موڑ کر چل دے۔ ان تیروں کا لگنا اور پھر ان کا نکالا جانا انتہائی دردناک ہے۔ ‘‘
معشوق کا کردار بھی عاشق کے علاج میں ہونا ضروری ہے۔ اس پر بھی واجب ہوتا ہے کہ وہ اپنے عاشق سے کہیں دور بھاگ جائے۔ [اور اس سے ہر طرح سے بچ کر رہے ] یا پھر اس جگہ کو ہی چھوڑ دے جہاں پر عاشق پایا جاتا ہے، اور عاشق کی راہیں کھلی چھوڑ دے۔ تاکہ عاشق کے کانوں میں اس کی بھنک بھی نہ پڑنے پائے، اورنہ اس کی کوئی حس یا اثر و نشانی محسوس کرسکے۔ نہ ہی عاشق اس کو دیکھ سکے ، نہ اس کا کلام سن سکے۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے اسے بالکل ہی بھول جائے۔
کبھی ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ عاشق اس جدائی کے اثر شدت کے ساتھ کو محسوس کرے؛ اور اس کی تکلیف اور عذاب بڑھتا ہی جائے۔ تو اس سے کہا جائے گا کہ ’’ صبر کرو ، بے شک کامیابی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ‘‘
عاشق تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ موت کے قریب پہنچ چکا ہے۔ تو ہم اس سے کہیں گے :
’’اگر تم اس طرح [عفت اور پاک دامنی کی حالت میں ] مر بھی گئے توتمہیں ان شاء اللہ اجر مل کر رہے گا۔ اس لیے کہ تم اپنے نفس کو حرام چیز سے روک رہے ہو، اور اگر تم زندہ رہے توپاکیزہ اور عزت والی زندگی گزاروگے۔اور اس مصیبت و
|