Maktaba Wahhabi

306 - 379
واقعات کے مطابق پاؤ گے۔پھر آپ ان کی اس حالت کو ایک پلڑے میں رکھیں ، اور ان کی توحید اور ایمان کو دوسرے پلڑے میں رکھیں ، اور پھر ان دونوں کا وزن کریں دیکھیں کہ کیا اس پر اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوں گے، اور کیا یہ عدل کے مطابق ہے؟ بسا اوقات ایسے عاشق بھی ہوتے ہیں جو کہ کھل کر کہتے ہیں کہ ان کے محبوب کا وصل ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی معرفت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ایک شاعرنے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اس کی معشوق کا وصل اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بڑھ کر محبوب ہے - اس رسوائی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ - وہ کہتا ہے : ’’اے محبوب! تیری رضامندی میرے دل میں جلیل القدر خالق ( اللہ تعالی) کی رحمت سے بڑھ کر مرغوب ہے ۔‘‘ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس قسم کا عشق شرک اکبر ہے۔ بہت سارے عاشق ایسے ہوتے ہیں جو کہ کھلے عام کہتے ہیں کہ ان کے دل میں ان کے معشوق کے علاوہ کسی کے لیے ذرہ بھر بھی جگہ باقی نہیں رہی۔ بلکہ معشوق اس کے دل پر مکمل طور پر قبضہ جمالیتا ہے، اور اس عاشق کا دل مکمل طور پرہر لحاظ سے معشوق کا غلام بن جاتا ہے، اور وہ اپنے خالق کی عبودیت کو چھوڑ کر مخلوق معشوق کی عبودیت پر راضی ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ عبودیت نام ہے کمال ِ محبت ؛ اطاعت اور خضوع کا، اور یہ انسان تو اپنے معشوق کی محبت کی قوت اور اس کے خضوع اوراطاعت و ذلت میں غرق ہوچکا ہے، اور حقیقی عبودیت تو اپنی معشوق کو دے دی ہے۔ اس عشق کی خرابی میں اور زنا کی برائی اور خرابی میں آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ۔ اس لیے کہ زنا کرنا زانی کے لیے کبیرہ گناہ ہے ،جس کا حکم بھی دیگر احکام کی طرح ظاہرہے۔ جب کہ اس عشق کی خرابی شرک میں مبتلا کردیتی ہے۔بلکہ صریح شرک ہے۔ بعض علماء فرمایا کرتے تھے: ’’ کسی حسین صورت کے ساتھ فحاشی میں مبتلا ہوجانا میرے لیے اس سے بڑھ کر محبوب ہے کہ میں اس کے عشق میں مبتلا ہوجاؤں ۔ میرا دل اسی کی
Flag Counter