اگر تم ایسا کرو گے تو تمھاے سامنے حق کا فیصلہ واضح اور آسان ہوجائے گا۔‘‘ چنانچہ میں نے اس پر عمل کیا، اور اس کے بعد کوئی بھی فیصلہ میرے لیے مشکل نہ رہا،[1] اور جب یمن میں اسلام پھیل گیا تووہاں کے باشندوں کو ایک ایسے آدمی کی ضرورت محسوس ہوئی جو انھیں دین کی تعلیمات دے اور اسلامی شریعت کے مطابق نزاعی معاملات کا فیصلہ کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے مختلف علاقوں میں معاذ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما جیسے دیگر صحابہ کو روانہ کیا، ان میں سب سے افضل علی رضی اللہ عنہ تھے، چنانچہ تاریخ، حدیث اور فقہ وغیرہ کی کتب میں علی رضی اللہ عنہ کے یمن میں قیام کے دوران ان کے کئی فیصلے ملتے ہیں ان میں سے دو کاذکر یہاں کیا جارہا ہے۔ 1: شیرکے شکار کے لیے کھودے ہوئے کنویں میں اٹھکیلیاں کھاتے ہوئے گرنے والے چار لوگوں کے بارے میں آپ کا فیصلہ: حنش سے روایت ہے، وہ علی رضی اللہ عنہ کے روایت کرتے ہیں کہ آپ کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا، وہاں ایسے لوگوں سے ہماری ملاقات ہوئی جنھوں نے آبادی سے باہر شیر کا شکار کرنے کے لیے ایک کنواں کھود رکھا تھا، کنویں میں شیرکے گرجانے اور پھنس جانے کے بعد وہ تماشہ دیکھنے میں اٹھکیلیاں کررہے تھے کہ اچانک ایک آدمی گڑھے میں گرنے لگا،اس نے ایک دوسرے آدمی کو اور دوسرے نے تیسرے کو بچاؤ کے لیے پکڑا، بالآخرچارآدمی ایک دوسرے کے اوپر گرے اور ان سب کو شیر نے بری طرح زخمی کرڈالا، تماشائیوں میں سے ایک آدمی نے جب یہ حالت دیکھی تو ہمت کی، اور ایک تیز ہتھیار سے شیر کو مارڈالا، اُدھر وہ چاروں ادمی بھی زخموں کی تاب نہ لاسکے اور مرگئے، پھر ایک نزاعی مسئلہ کھڑا ہوگیا، کہ ہر پہلے گرنے والے شخص کے اولیاء دوسرے شخص کے اولیا سے لڑائی جھگڑے اور دیت کے مطالبہ پر بضد ہوگئے۔ اتنے میں وہاں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ آگئے اور کہا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باحیات ہوتے ہوئے تم آپس میں کٹ مر نا چاہتے ہو، میں تمھارا فیصلہ کرتا ہوں، اگر تم اسے مان لیتے ہو توٹھیک ہے ورنہ اس وقت تک جھگڑا بند رکھو جب تک کہ تم سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ پہنچ جاؤ، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمھارا فیصلہ کریں۔ اس کے بعد بھی جو زیادتی کرے اس کا کوئی حق نہ ہوگا، میرا فیصلہ ہے کہ گڑھے کے پاس جتنے لوگ تماشہ دیکھنے آئے تھے ان سب کے قبیلہ والے مجموعی طور سے اتنا تاوان جمع کرلیں جو ایک چوتھائی دیت، ایک تہائی دیت، نصف دیت اور مکمل ایک دیت کے لیے کافی ہو،پھر جو شخص سب سے پہلے گرا ہے اس کے اولیاء کو ایک چوتھائی دیت دیں اس لیے کہ وہی دوسرے کے ہلاکت کا سبب بنا ہے، اسی طرح گرنے والے دوسرے شخص کے اولیاء کو ثلث اور تیسرے کے اولیاء کو نصف دیت دی جائے، لیکن وہ آپ کے اس فیصلہ اور معاملہ کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ مقام ابراہیم کے پاس تھے، انھوں نے پورا واقعہ بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَنَا أَقْضِیْ بَیْنَکُمْ۔))میں تمھارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |