Maktaba Wahhabi

156 - 1201
آدمی پر پڑی جو سرخ اونٹ پر سوار ہو کر لشکر میں گھوم رہا تھا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا عَلِي! نَادِ حَمْزَۃَ)) اے علی! حمزہ کو بلاؤ، وہ لشکر کفار کے بالمقابل قریب تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا: ((مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ الْأَحْمَر، وَ مَاذَا یَقُوْلُ لَہُمْ)) سرخ اونٹ پر کون سوار ہے، اور لوگوں سے کیا کہہ رہا ہے؟ پھر آپ فرمانے لگے: ((إِنْ یَّکُنْ فِيْ الْقَوْمِ أَحَدٌ یَامُرُ بِخَیْرٍ، فَعَسَی أَنْ یَّکُوْنَ صَاحِبْ الْجَمَلِ اْلَٔاحْمَرَ)) اگر اس لشکر میں کوئی اچھی بات کا مشورہ دے سکتا ہے تو امید ہے کہ سرخ اونٹ کا یہی سوار ہوگا۔ چنانچہ حمزہ آئے اور کہا، وہ عتبہ بن ربیعہ ہے، وہ اپنی قوم کوجنگ کرنے سے روک رہا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ اے لوگو! میں ایک پروقار و پرسکون قوم دیکھ رہا ہوں، تم اس تک نہیں پہنچ سکتے، واپس لوٹنے ہی میں بھلائی ہے، آج کی بدنامی میرے سر باندھ دو اور کہہ سکتے ہو کہ عتبہ بن ربیعہ بزدل ہوگیا ہے، حالانکہ تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میں بزدل نہیں۔‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عتبہ کی اس بات کو ابوجہل نے سن لیا او رکہا، تم! اورایسی بات کہہ رہے ہو؟ اللہ کی قسم اگر آج کوئی دوسرا یہ بات کہتا تو میں دانتوں سے اس کی گردن کاٹ دیتا، تمھارا کلیجہ اور پیٹ مسلمانوں کے خوف اور رعب سے بھر گیا ہے، عتبہ کہنے لگا: اے ڈرپوک تو اور مجھے عار دلاتا ہے؟ آج تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میں بزدل ہوں یا تم، پھر عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ اپنی قومی حمیت میں باہر نکلے، اور کہا، کون ہے جو مقابلہ میں آگے آئے گا؟ جواب میں چھ انصاری نوجوان میدان میں اترے، عتبہ نے کہا، ہمیں تم سے کوئی مطلب نہیں ہے، ہمارے مقابلہ میں ہمارے ہی بنی عم یعنی بنوعبدالمطلب کے افراد آئیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((قُمْ یَا عَلِیُّ! قُمْ یَاحَمْزَۃُ، وَقُمْ یَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ الْمُطْلَبِ۔))’’اے علی اٹھو، اے حمزہ اٹھو، اے عبیدۃ اٹھو‘‘چنانچہ مقابلہ ہوا، اور اللہ تعالیٰ نے ربیعہ کے دونوں لڑکوں عتبہ ، شیبہ ، اور عتبہ کے لڑکے ولید کو قتل کے ذریعہ سے موت کے گھاٹ اتارا، اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بھی زخمی ہوگئے، ہم نے ان کے ستر آدمیوں کو قتل اور ستر کو قید کیا اور ایک چھوٹے قد کے انصاری صحابی نے عباس بن عبدالمطلب کو قید کیا۔ عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم ہے کہ اس شخص نے مجھے قید نہیں کیا ہے، بلکہ چتکبرے گھوڑے پر سوار ایک خوبصورت اور گنجے آدمی نے مجھے قید کیا ہے، جو مجھے کہیں نظر نہیں آرہا ہے، انصاری کہنے لگے: اللہ کے رسول! میں نے ہی ان کو قید کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اُسْکُتْ، فَقَدْ اَیَّدَکَ اللّٰہُ تَعَالَی بِمَلَکٍ کَرِیْمٍ)) ’’خاموش رہو، اللہ نے فرشتے کے ذریعہ سے تمھاری مدد فرمائی ہے۔‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے یں: ہم نے بنوعبدالمطلب سے عباس، عقیل اور نوفل بن حارث کو قید کیا۔[1] علی رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر کی جو تصویر کھینچی ہے اس میں ہم عبرت و موعظت اور فوائد کے بے شمار اسباق دیکھ رہے ہیں، جنھیں میں نے اپنی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ‘‘[2]میں ذکر کیا ہے۔
Flag Counter