کرے تو اس کا جہاد قبول نہیں۔) (۲)دشمن پر جنگ کی شرائط پیش کرنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا یہ دستور تھا کہ لڑائی شروع کرنے سے پیشتر تین باتیں دشمن کی پیش کی جاتی تھیں اور اسے اختیار دیاجاتا تھا کہ ان میں سے جونسی شرط چاہے قبول کرلے۔ وہ شرائط حسب ذیل ہیں۔ (۱) دشمن کو بذریعہ سفارت پیغام بھیجا جاتا تھا کہ وہ اسلام لے آئیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ جس طرح مسلمان دنیا سے فتنہ و فساد کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ اگر وہ اسلام لے آتے اور مسلمانو ں کے مشن میں ان کے ممدود مدد گار ثابت ہوتے تو ان کو مسلمانوں جیسے جملہ حقوق مل جاتے تھے۔ اور ان کا ملک‘ علاقہ انہی کے پاس رہنے دیاجاتا تھا۔ (۲) دوسری شرط یہ ہوتی تھی کہ اگر وہ اسلام لانا گوارا نہیں کرتے تو مسلمانوں کے مشن میں کم از کم رکاوٹ نہ بنیں۔ اندریں صورت انہیں اپنے مذہبی حکام بجالانے اور اپنی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کی مکمل آزادی ہوتی تھی۔ البتہ سیاسی اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ آ جاتا تھا پھر انہیں اسلام یا پیغمبر اسلام کے خلاف زہر اگلنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اور اس قوم کی دفاعی ذمہ داریاں مسلمانوں پر آپڑتی تھیں۔ جس کے عوض انہیں معمولی ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ جسے شرعی زبان میں جزیہ کہتے ہیں:۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ 29ۧ ﴾ (۹/۲۹) (جو لوگ اہل کتاب میں سے اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ زیر دست ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ ادا کریں۔) |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |