جن مشہور فاتحین نے بہت سے علاقے فتح کیے۔ ان میں سے کوئی ایسا بھی مفتوح علاقہ بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے جس نے فاتح قوم کے نظریات کو محض تلوار کے زور سے دل جان سے تسلیم کر لیا ہو گا۔ تاریخی حقائق کی کسوٹی پر: اگر تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلنے کے نظریہ کو درست سمجھ لیا جائے تو مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ (۱) ابتداء ً جو لوگ مسلمان ہوئے اور ۱۳ سال تک مکہ میںظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے انہیں کون سی تلوار نے مسلمان کیا تھا ؟ (۲) مدینہ پہنچ کر جنگ بدر کے میدان میں مسلمانوں کے پاس کون سی تلوار تھی ؟ تلوار اگر تھی تو وہ قریش کے پاس تھی۔ لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جنگ بدر تک کے چودہ سال میں صرف ۳۱۳ مجاہدین اسلام سامنے آتے ہیں لیکن ایک سال بعد جنگ احد میں یہ تعداد سات سو تک جا پہنچتی ہے۔ یعنی ایک سال میں تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ اضافہ کون سی تلوار نے کیا تھا ؟ (۳) جنگ احد میں بھی تلوار دشمن کے پاس تھی جو تعداد میں چار پانچ گنا بھی تھا اور مسلح بھی۔ لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تلوار والوں سے بہت سی تعداد مسلمانوں سے آملتی ہے۔ اور دو سال بعد جنگ خندق کے موقعہ پر مجاہدین کی تعداد ۳ ہزار یعنی جنگ احد سے چار گنا ہو جاتی ہے۔ (۴) صلح حدیبیہ میں تلوار کا مسئلہ ہی سامنے نہیں آیا۔ لیکن مسلمانوں کی جمعیت میں لا تعداد اضافہ ہو گیا۔ (۵) یہودیوں سے جو جنگیں ہوئیںہیں۔ ان میں بھی تلوار یہودیوں کے پاس تھی۔ جیسا کہ ان کا اپنا بیان ہے۔ ان کی مشہور جنگ خیبر تھی۔ جس میں مسلمان صرف چودہ سو تھے اور یہود ۱۰ ہزار۔ اس کے نتیجہ میں بھی بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے۔ (۶) فتح مکہ میں یہی صورت حال پیدا ہوئی۔ قریش مکہ کو عام معافی تو مل چکی تھی۔ پھر انہیں اسلام لانے پر کون سی تلوار نے مجبور کیا۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |