سپہ سالار اور فوج کے باہمی تعلقات: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی فوج سے پوری ہمدردی تھی۔ فوج کے دُکھ سکھ اور کام کاج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کے شریک ہوتے تھے جنگ احد میں صحابہ کو دکھ پہنچا تو آپ کو بھی دکھ پہنچا اور حنین کی شکست کے آثار نظر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی جان بچانے کی فکر کریں بلکہ میدان میں کھڑے ہوکر للکارا ۔ منتشر اور پریشان صحابہ ث کو مجتمع کیا صحابہ کو نئی زندگی ملی جس کی وجہ سے دونوں مقامات پر جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ان جنگوں سے پیشتر ہجرت کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی زیادہ مروت وایثار کا مظاہرہ فرماچکے تھے۔ مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم مل چکا تھا۔ اور وہ سب یکے بعد دیگرے مکہ سے مدینہ کی طرف کوچ کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ہر روز مصر ہوتے کہ حضور ا بھی مدینہ چلے جائیں۔ مگر ہمیشہ یہی جواب ملتا کہ ’’ابھی میرے جانے کا وقت نہیں آیا اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوچ کا حکم نہیں ملا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہ تھی کہ سب مسلمان بخیر وعافیت مدینہ پہنچ جائیں تب آپ ادھر کا رُخ کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت مکہ کو الوداع کہا جب باقی مسلمان مدینہ پہنچ چکے تھے۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق باقی رہ گئے تھے۔ اور جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے گھر سے باہرنکلے تو سازشی قریشیوں کا مسلح پہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھا۔ اس معیار پر نپولین بونا پارٹ کو دیکھئے۔ وہ بلاشبہ اپنے سپاہیوں کے کردار سے انفرادی واقفیت رکھتا تھا۔ فوج کے اکثر سپاہیوں کے اُسے نام تک یاد تھے۔ وہ اُن سے کام لینا بھی خوب جانتا تھا لیکن آڑے وقتوں میں اسے صرف اپنی جان بچانے کی فکر ہوتی تھی۔ مصر میں انگریزوں کے مقابلہ میں عکہ کے مقام پر اسے شکست ہوئی تو وہ اکیلا وہاں سے فرار اختیار کرکے فرانس چلا آیا۔ اسے یہ فکر لاحق نہیں ہوئی کہ اس کی فوج کس حال میں ہے۔ واٹر لو کے مقام پر اسے شکست ہوئی تو وہاں سے بھی راہ فرار اختیار کی اور جہاز پر سوار ہونے کو تھا کہ گرفتار ہوگیا۔ رسول اللہ کی فو ج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف اطاعت گزار ہی نہ تھی جان نثار بھی تھی۔ فوج اور |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |