انتخاب کے لیے اہل الرائے سے مشورہ لینا پڑا۔ اسی طرح سپہ سالار کو اپنے لشکر کے لیے کئی چھوٹے بڑے کمانڈر مقرر کرنا پڑتے ہیں۔ اس وقت عدل و انصاف اور باہمی مشورہ سے کام لینا چاہئے۔ اگر سپہ سالار محض اپنی پسند و نا پسند کے مطابق ترقیاں اور درجات عطا کرنا شروع کر دے تو فوج میں انتشار اور بے دلی پھیل جاتی ہے۔ (۷) رازداری اور خفیہ اطلاعات (Secracy + Intelligence): جس طرح دشمن کی نقل و حرکت اور اس کے حالات سے آگاہ رہنا ضروری ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اپنے حالات اور نقل و حرکت سے دشمن کو حتی الوسع بے خبر رکھا جائے۔ لہٰذا ایسے ’’فوجی راز‘‘ سوائے گنتی کے چند مشیروں اور معتمدان خاص کے کسی کو معلوم نہ ہونے چاہیں۔ حتی کہ فوجی عوام بھی جنگی پالیسی سے آگاہ نہیں ہوتے۔ فتح مکہ کی تیاری کے دوران اس بات کا اتنا خیال رکھا گیا کہ آپ نے اپنے حلیف قبائل کو جو خفیہ پیغامات بھیجے وہ اس رازداری سے بھیجے گئے تھے کہ عام مسلمانوں کو بھی اس کی خبر نہ تھی۔ اسی موقعہ پر ایک سچے مسلمان حاطب بن ابی بلتعہ سے ایک لغزش ہو گئی۔ انہوں نے بھی خفیہ طریق سے ایک عورت کے ہاتھ رقعہ دے کر اہل مکہ کو چڑھائی کے متعلق آگاہ کرنا چاہا تھا۔ جس سے اس صحابی کی غرض محض اس ’’احسان ‘‘ کے بدلے اپنے بال بچوں کی حفاظت تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ اس واقعہ کی خبر مل گئی۔ تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تعاقب میں روانہ کیا جنہوں نے اس عورت سے بجبر رقعہ برآمد کر لیا۔ رازداری کی اہمیت یہ ہے کہ بعض دفعہ محض ایک راز کے لیک آ ؤ ٹ ہو جانے سے جنگ کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔ اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک عام حکم دے دیا۔ {يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا } (۳:۱۱۸) (اے مومنو! اپنے علاوہ کسی دوسرے کو راز دار نہ بنا ؤ ۔ یہ لوگ تمہاری بربادی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور چاہتے ہیں کہ تم تکلیف میں پڑ جا ؤ ۔ ) آپ کی راز داری کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲ھ میں ۱۲ آدمیوں کا ایک گشتی دستہ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |