راہ نکالے گا صلح کی شرائط اب طے ہو چکیں اور ہم ان لوگوں سے بدعہدی نہیں کرسکتے‘‘۔ (ابن ہشام) (۴) مکہ میں رہ جانے والے مظلوم مسلمانوں میں سے ایک عُتبہ بن اسید (ابوبصیر) تھے۔ یہ بھی کفار قریش کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ بھاگ آئے، ساتھ ہی قریش کے دو آدمی پہنچ گئے کہ ہمارا آدمی واپس کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر رضی اللہ عنہ سے واپس جانے کو کہا تو انہوں نے جواب دیا۔ آپ مجھے کافروں کے پاس بھیجتے ہیں کہ پھر مجھے کفر پر مجبور کر دیں ۔ اب ایک طرف کفر کا خطرہ سامنے تھا، دوسری طرف ایفائے عہد۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ سے فرمایا۔’’ اللہ تعالیٰ اس کی کوئی راہ نکالے گا اور عتبہ کو کافروں کی حراست میں دے دیا۔ راستہ میں عتبہ نے ایک نگران کو تو قتل کر دیا۔ دوسرا مفرور ہو کر پھر مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ اور شکایت کی۔ ساتھ ہی ابوبصیر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور کہا، ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد کے مطابق مجھے واپس کر دیا تھا۔ اب آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔‘‘ (طبری ج اصلح حدیبیہ) (۵) غرض ایسے نازک موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات بے شمار ہیںحتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوبی کا اعتراف کرتے تھے،جنگ احزاب کے موقع پر جب بنو نظیر کے سردار حی بن اخطب نے بنو قریظہ کو عہدشکنی پر برانگیختہ کیا تو بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد نے یوں جواب دیا: «فانی لم ارمن محمدالاصدقاً ووفاًء» (میں نے محمد کو ہمیشہ سچ کہنے والا اور وعدہ پورا کرنے والا پایا ہے۔) کعب بن اسد کی اس شہادت کے باوجودکہ صدق اور وعدہ وفائی بہت بڑی خوبی ہے۔جو محمد میں پائی جاتی ہے۔جب اس کی اپنی باری آئی بالآخر عہد شکنی ہی کی[1]۔ پھر یہ خوبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تک محدود نہ تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے بھی عہد کی پوری پوری پابندی کرکے مثال قائم کر دی۔ دورِ فاروقی میں شام کی فتوحات کی سلسلہ جاری تھا۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے دمشق کا |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |