Maktaba Wahhabi

238 - 268
محاصرہ کر رکھا تھا۔ ایک دن اہل دمشق کوئی جشن منا رہے تھے۔ حضرت خالد بن ولید صنے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند جانبازوں کے ہمراہ فصیل پر کمند لگائی۔ اُوپر چڑھے اور قلعہ کے دروازے کھول دیے۔ خالدی فوج فاتحانہ انداز میں قلعہ میں داخل ہوگئی۔ اہل دمشق نے دوسری جانب حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت کی درخواست کر دی۔ جو انہوں نے نئی صورتِ حال سے لا علمی کی بنا پر قبول کر لی۔ چنانچہ محض ایفائے عہد کی خاطر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے مفتوحہ علاقہ اہل دمشق کو واپس دے دیا[1]۔ شام کی فتوحات کے دوران عیسائیوں نے صلح کے لیے اپنے قاصد جارج کو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ وہ شام کے وقت پہنچا۔ نماز با جماعت کا پر کیف منظر دیکھ کر سخت متاثر ہوا۔ بعد میں حضرت عیسیٰ کے متعلق چند سوال کیے جن کا حضرت ابوعبیدہ﷜ نے شافی جواب دیا۔ نتیجتاً جارج مسلمان ہو گیا۔ اور چاہا کہ یہیں رہ جائے لیکن حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے محض اس خیال سے کہ رومیوں کو بد عہدی کا گمان نہ ہو اسے مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا اس کے ساتھ چلے جانا[2]۔ (۱۲)امان یا پناہ: امان یا پناہ بھی ایفائے عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ مسلمانوں کا ایفائے عہد دشمنوں میں بھی اس قدر زبان زد تھا کہ دشمن نے بعض دفعہ مسلمانوں کی کسی واقعہ سے لا علمی سے فائدہ اٹھا کر امان حاصل کی۔ اور عظیم فائدے حاصل کیے، اور مسلمان جو پناہ دے چکے تھے، یہ جانتے ہوئے کہ ان سے مکرو فریب سے امان حاصل کی گئی ہے، اپنا نقصان اٹھا کر بھی اس عہد کو پورا کیا۔ غلام کی امان: فوزستان (ایران) کی فتوحات کے سلسلہ میں ایک مقام جندی شابورکا مسلمانوں نے محاصرہ کیا ہو تھا کہ ایک دن شہر والوں نے خود شہر پناہ کے دروازے کھول دیئے اور نہایت اطمینان سے اپنے کام کاج میں لگ گئے۔ مسلمانوں کو اس بات پر بڑی حیرت ہوئی۔ سبب پوچھا تو شہر والوں نے کہا کہ: ۔’’ تم ہم کو جزیہ کی شرط پر امان دے چکے ہو۔ اب کیا جھگڑا رہا۔‘‘ سب کو حیرت تھی کہ امان کس نے دی؟ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا
Flag Counter