دراصل ان کو یہ سزااسیران جنگ ہونے کی حیثیت سے نہیں ملی تھی۔ بلکہ یہ یہود کی مسلسل عہد شکنیوں ، غداریوں اور سازشوں[1] کی سزا تھی۔ (۲) یہود نے فیصلہ کے لیے قبیلہ اوس (جو یہود کے حلیف تھے) کے سردار سعد بن معاذ کو بطور ثالث منتخب کیا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کرلیا ۔ بنو قریظہ کے متعلق انہوں نے فیصلہ یہ دیا تھا کہ:۔ (۱) جو لوگ لڑنے کے قابل ہیں قتل کیے جائیں۔ (۲) عورتیں، بچے اور معذور قیدی بنا لیے جائیں۔ (۳) مال واسباب غنیمت قرار دیا جائے۔ چنانچہ فریقین نے یہ ثالثی فیصلہ تسلیم کرلیا۔ پھر یہ فیصلہ چونکہ توریت کی شریعت کے عین مطابق تھا لہذا یہود نے اسے بخوشی منظور کرلیا۔ یہ ہے اس گھنا ؤ نے الزام کی حقیقت کہ اسلام میں اسیرانِ جنگ کو لونڈی غلام بنا لیا جاتا ہے ۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے کل اسیران جنگ کی تعداد ۶۸۷۲ ہے۔ جن میں سے۷۰فدیہ لے کر چھوڑے گئے۔ ۶۲۰۲ صرف از راہ احسان چھوڑ ہی نہیں دئیے گئے بلکہ ان پر مزید احسان بھی کیے گئے ۔ ۳۰۰ اسیرانِ جنگ (یہودیوں) کو لونڈی غلام اور۴۰۰ کو تہ تیغ کیا گیا۔ یہ فیصلہ انہی کے پسندیدہ ثالث کا فیصلہ تھا اور یہ ان کی مسلسل عہد شکنیوں اور سازشوں کی سزا انہیں قدرت کی طرف سے ملی تھی۔ غلامی کا مسئلہ : اسیران جنگ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو اقتضآت زمانہ سے متعلق ہے۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جیل خانے موجود نہیں تھے۔ ان کی حفاظت کا واحد طریقہ یہ تھا کہ ان کی رہائش ، خوراک ، نگہداشت اور حراست کی ذمہ داری حکومت کے بجائے عام مسلمان پر ہو۔ تاا ٓنکہ ان کو آزاد نہ کردیا جائے۔ اس عبوری دور میں قیدیوں سے سلوک سے متعلق احکام یہ ہیں۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |