Maktaba Wahhabi

141 - 268
اس موقعہ پر حضرت عمر ص غصہ سے بیتاب ہوگئے اور عبداللہ بن ابی کے قتل کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ لوگ کہنے لگیں کہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ والوں کو قتل کردیا کرتے ہیں‘‘۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر تحت سورۂ منافقون ۶۳) (۵) اسی غزوہ سے واپسی پر واقعہ افک پیش آیا ۔ منافقین نے حضرت عائشہ ص پر تہمت لگا کر جیسے اُسے مشہور کیا اس کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ (۶) جنگ احزاب کے موقعہ پر مدینہ کے اندر موجود بنو قریظہ کے ساتھ منافقین مل گئے اور فتنہ گری میں برابر کے شریک رہے۔ (۷) جنگ خیبر کی تیاریوں کی خفیہ اطلاع عبد اللہ بن ابی صنے یہودیوں کو پہنچائی۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی بھیجا کہ :۔’’تم مسلمانوں سے نہ ڈرنا۔ ان کی ہستی کیا ہے۔ مٹھی بھر آدمی ہیں جن کے پاس ہتھیار تک موجود نہیں‘‘۔ اس پیغام پر یہود چوکس ہوگئے اور بنو غطفان وغیرہ سے اتحاد کے معاہدے کئے۔ (۸) اپنی تخریبی سرگرمیوں کو منظم بنانے کے لیے ۹ ھ میں مسجد ضرار تعمیر کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسجد کا افتتاح فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ بھی فرمالیا کہ غزوہ تبوک کے بعد اس میں افتتاحی نماز پڑھائیں گے۔ دریں اثنا اس مسجد کو جو امت میں افتراق و انتشار کا ایک سبب بن سکتا تھا۔ مسمار کرادیا۔ یہ ہے منافقین کے کارناموں کی مجمل فہرست ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کو قتل کراسکتے تھے۔وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ کی رُو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اجازت بھی تھی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کی نرمی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع پر درگرز فرماتے رہے۔ ان سے باقاعدہ جنگ اس لیے مشکل ہوتی ہے کہ نفاق کا تعلق باطن سے ہوتا ہے۔ ظاہر سے نہیں۔ ظاہری طور پر وہ مسلمان ہوتے ہیں۔ اور احکام کا اطلاق ظاہر پر ہوتا ہے۔ باطن پر نہیں۔ ان پر سختی کا مطلب ان سے جنگ یا جہاد نہیں بلکہ ان سے باز پرس میںنرمی کے بجائے سختی کرنا ہے۔ یہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے منافقین کی بات تھی۔ آج کے منافقین کی فتنہ گری کے اطوار بدل چکے ہیں۔ حکومت وقت کے خلاف خفیہ سازشیں‘ دشمن کو خفیہ راز مہیا کرنا۔ سرکاری املاک کو برباد کرنا، بیرونی طاقتوں اور ان کے نظریات کے لیے میدان ہموار کرنا، ادب وثقافت کے نام پر
Flag Counter