Maktaba Wahhabi

45 - 268
جانے کا ہمت آزما مرحلہ تھا۔ کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اس مہم کے لئے تیار ہو گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ بچتے بچاتے اور چھپتے چھپاتے دشمن کے کیمپ میں جانے تک کامیاب ہو گئے۔ آپ نے دیکھا کہ دشمن سخت مایوسی کے عالم میں بیٹھا ہے۔ ابوسفیان سالارِ قریش کچھ بات کرنا چاہتا تھا۔ اس نے لشکر کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ پہلے سب لوگ تسلی کر لیں کہ ان کے ساتھ کوئی دشمن کا آدمی تو نہیں۔ پوچھ گچھ شروع ہوئی تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے خود دوسروں سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔ وہ خود چورکو پکڑ و پکارنے لگے۔ جب ابوسفیان کی تسلی ہو گئی۔ تو لشکر کی طرف متوجہ ہو کر کہا:- محاصرہ طویل ہو گیا اور رسد ختم ہو گئی۔ بنو قریظہ نے ساتھ چھوڑ دیا اور موسم ناساز گار ہے۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ واپس چلے جائیں‘‘۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پوری رپورٹ لے کر اسی طرح بچتے بچاتے واپس آ گئے اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورتحال کی اطلاع دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے۔اور فرمایا ہر نبی علیہ السلام کا کوئی حواری ہوتا ہے۔ اور میرا حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب الجهاد والسیر۔ باب هل یبعث الطلیعة) ان تصریحات سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک سپہ سالار کے دشمن کی نقل و حرکت سے باخبر رہنا کس قدر ضروری ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذمہ داری کو کس قدر مستعدی اور جانفشانی سے سرانجام دیا تھا۔ ایسے دستوں کی روانگی سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوئے:- (۱) مدینہ کے آس پاس کے علاقہ کے متعلق پوری معلومات حاصل ہو گئیں۔ (۲) دشمن کی نقل و حرکت اور سیاسی اور حربی سرگرمیوں سے مسلمان پوری طرح واقف رہتے تھے۔ (۳) ان دستوں کی روانگی نے ابتدائی جنگی مشقوں کا کام دیا۔ (۵)عسکری تنظیم: اسلام سے پہلے دنیا میں بالعموم جاگیر داری نظام رائج تھا۔ بادشاہ اپنے سرداروں کو جاگیریں عطا کرتے تھے اور یہ سردار اس کے عوض جنگ کے موقع پر فوج اور اس کے لوازمات مہیا
Flag Counter