حالت میں پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے۔ ایک دن صحابہ ث نے بھوک سے بے تاب ہو کر آ پ کے سامنے اپنے اپنے شکم کھول کھول کر دکھلائے کہ پتھر بندھے ہیں۔ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹایا تو دوبندھے تھے۔ (شمائل ترمذی) اپنے ساتھیوں سے دکھ درد میں شرکت کی ایسی مثال تاریخ میں اور بھی کہیں مل سکتی ہے؟ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ ایسی تنگی ترشی صرف غریب سپاہیوں کا مقدر ہوتی ہے۔ افسر لوگ ایسی تکالیف کا پہلے سے انتظام کر رکھتے ہیں۔ (۳)سواری میں مساوات: غزوہ بدر کے موقعہ پر جب مسلمانوں کے پاس آلات حرب کی بھی بہت کمی تھی اور سواریوں کی بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں جو اُونٹ آیا اس میں حضرت علی ص اور مرثد بن ابی مرثد غنوی بھی شریک تھے۔ اس پر آپ صرف اپنی باری سے سوار ہوتے تھے۔ صحابہ کرامث جاں نثارانہ طور پر اپنے سوار ہونے کی باری کی پیش کش کرتے اور کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار رہیں اور ہم پیادہ چلتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’نہ تو تم مجھ سے زیادہ پا پیادہ چل سکتے ہو اور نہ ہی میں تم سے کم ثواب کا محتاج ہوں‘‘۔ (مسند امام احمد ج ا ص۴۲۲) (۴)کام کاج میں شرکت: کسی غزوہ پرجاتے ہوئے آپ نے ایک مقام پر پڑا ؤ کیا۔ اور کھانا پکانے کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ سب صحابہ ث نے آپس میں کام بانٹ لیے۔ جب صحابہث کام کاج میں مصروف ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے غائب ہوگئے۔ صحابہ ا پریشان ہوئے تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگل سے ایندھن اکٹھا کرکے لا رہے ہیں۔ صحابہ ث نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام ہم کرلیں گے آپ تکلیف نہ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ہاں ٹھیک ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں تم سے اپنے آپ کو ممتاز سمجھوں۔ اللہ اس بندہ کو پسند نہیں کرتا۔ جو اپنے ہمراہیوں میں ممتاز بنتا ہے۔ (سیرۃ النبی ج ۲ ص ۴۱۲) غور فرمائیے۔ جب یہ بات عقیدہ میں شامل ہو تو سپہ سالار یا دوسرے کماندار کیونکر امتیازی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں؟ ایک انگریز مصنف مسٹر وائل، اپنی تصنیف ’’ہسٹری آف دی اسلامک پیپل‘‘ میں |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |