کی رسو ا ئی کا سبب۔ جو نسا بھی طریق اختیا ر کر نا پڑے قید یو ں کو جلد از جلد چھڑا نا چا ہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بہت تا کید فر ما ئی ہے۔ ان تصر یحا ت سے ظا ہر ہے کہ اسلا م کے نظریہ جنگ کے مطا بق شکست ایک غیر مترقبہ حا لت ہے جسے غیر معمولی مجبو ری کی حالت میں ہی بر دا شت کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا سپہ سالار کے لیے یہی منا سب ہے کہ اگر اس کی افو ا ج حصو ل ِ فتح کے لیے نا کا فی ہو ں تو اسے جنگ سے ا حتراز کر نا چاہیے ۔ اگر اسے شکست نظر آرہی ہو تو پیچھے ہٹ جا ئے اور با قی ما ندہ مسلما نوں کی جانیں بچائے۔ شکست خو ردہ مسلما ن برا بر ارادہ ر کھتے تھے۔ کہ جنگ پھر کر یں گے خو اہ اس کے لیے کتنی ہی مد ت انتظا ر کر نا پڑے پھر اسلا م میں دنیوی جنگیں شر وع ہو گئیں تو فتح و شکست کا فیصلہ جہاد کی طرح مقا صد کی حقا نیت پر نہیں بلکہ فو جوں کی ہمت استقا مت اور سپہ سا لا روں کی تد بیروں پر ہو نے لگا۔ ایسی جنگو ں میں شکست بھی گنا ہ نہیں سمجھی جا تی تھی۔ خو ا ہ مقا بل حکمر ان مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اگر مسلما نوں پر خدا نخو ا ستہ کو ئی افتا د آ پڑے اور امیر کو بحا لت مجبوری دشمن سے صلح کر نا پڑے تو اس صلح کی مد ت صلح حدیبیہ سے کم ہو نی چا ہیے۔اور ساتھ ہی جہا د کی تیا ر ی شر و ع رکھنا چا ہیے۔تا کہ مد ت پو ری ہو نے پر جہا د شر وع کیا جا سکے۔ اگر پھر بھی امیر کو یہ محسو س ہو کہ لڑنے کی قوت پیدا نہیں ہو ئی، تو اتنی ہی مد ت کے لیے معا ہدہ کی تجد ید ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سے زیا دہ مد ت کے لیے صلح کی تو کا لعدم سمجھی جا ئے گی[1]۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |