گئے تو انہوں نے وہاں جا کر قید کے نگران کو تبلیغ شروع کردی جس سے وہ مسلمان ہوگیا۔ پھر اس نے بھی تبلیغ شروع کردی۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور ہوتے ہوتے مکہ میں مسلمانوں کی تعداد ۳۰۰ تک پہنچ گئی۔ لہٰذا اس شرط سے قریش کو سخت تکلیف پہنچی۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔ عتبہ بن اسید وہ پہلے مسلمان ہیں جو کفار مکہ کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر مدینہ میں پناہ لینے کے لیے راہ فرار اختیار کرنے میں کامیا ب ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں پہنچے تو قریش نے بھی دو آدمی ان کو واپس لانے کے لیے مدینہ بھیج دئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن اسید کو ابو جندل رضی اللہ عنہ کی طرح واپس کردیا۔ صبر کی تلقین کی اور یوں تسلی دی کہ ’’اللہ کوئی بہتر تدبیر پیدا کردے گا۔ یہ لوگ جب عتبہ بن اسید رضی اللہ عنہ کو حراست میں لے کر واپس ہوئے تو راستہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر حضرت عقبہ بن اسید رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک کو قتل کردیا۔ دوسرا فرار ہوکر واپس مدینہ پہنچا تاکہ حضور ا سے فریاد کرے۔ لیکن ساتھ ہی عتبہ بن اسید خود بھی حاضر ہوگئے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب معاہدہ مجھے واپس کردیا۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذمہ دار نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر بحیرہ قلزم کے کنارے مقام عیص پر پہنچ کر اقامت اختیار کر لی۔ اور قریش کے تجارتی قافلوں کی ناکہ بندی کردی۔ اب دوسرے مظلوم مسلمان بھی مدینہ کی بجائے اس طرف کا رُخ کرنے لگے رفتہ رفتہ یہاں ایک ایسی آبادی قائم ہوگئی۔ جو قریش اور ان کے قافلوں کے لیے وبال جان بن گئی۔ ان دونوں باتوں سے تنگ آکر قریش مکہ نے خوداس شرط کو منسوخ قرار دینے کی درخواست کردی۔ اور کہا کہ آئندہ جو مسلمان مدینہ جاکر رہنا چاہیں ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمالیا۔ چنانچہ عیص کی نو آبادی کے سب مسلمان مدینہ چلے گئے اور اس طرح قریش کے تجارتی قافلوں کا رستہ بدستور کھل گیا[1]۔ اور اس شرط کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ مسلمان آزادانہ مکہ میں آنے جانے لگے۔ میل جول بڑھا۔ تو کفار کو مسلمانوں کے کردار اور اسلام کے سمجھنے کا صحیح ذوق پیدا ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ ابتدائے ہجرت سے صلح حدیبیہ تک مسلمانوں کی تعداد تین چار ہزار سے بڑھنے نہ پائی تھی۔ لیکن اس کے صرف دو سال بعد فتح مکہ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |