دلی بہت زیادہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت بھی رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے بھی افسر بنا دیجیئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا۔ ’’اے ابوذر ! تو کمزور ہے اور افسری امانت ہے۔ جو قیامت کو رسوائی کا باعث بن سکتی ہے۔ (مسلم ‘ کتاب الامارۃ۔ باب کراہیۃ الامارۃ) اور ایک دوسری روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ ’’اے ابوذر! تو بھی میرے جیسا ہی (نرم دل) ہے۔ میں تمہیں دو آدمیوں پر بھی افسر بنانے کو تیار نہیں‘‘۔ اور یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’میرے جیسا‘‘ فرمایا تو یہ مشابہت محض نرم دلی کے پہلو سے تھی۔ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو اولی الامر کے جملہ اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سال روم کی طرف ایک لشکر تیار کیا اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اس کا سپہ سالار منتخب کیا۔ اس واقعہ سے متعلق حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ یوں روایت کرتے ہیں: ((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بَعْثاً وَاَمَّرَ عَلَیْهِمْ اُسَامة بْنَ زَیْدٍ فَطَعَنَ النَّاسُ فِیْ اَمَارَتِه وَ قَا مَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَیْهِ وسلم فَقَالَ: اِنْ تَطْعَنُوْا فِیْ اَمَارَتِه فَقَدْ کُنْتُمْ تَطْعَنُوْنَ فِیْ اِمَارَةِ اَبِیْهِ مِنْ قَبْلُ وَاَیْمُ اللّٰهِ اِنْ کَانَ لَخَلِیْقاً لِلْاَمَارَةِ وَاِنْ کَانَ لَمِنْ اَحَبِّ النَّاسِ اِلَیَّ وَاِنَّ هٰذَا لَمِن اَحَبِّ النَّاسِ اِلَیَّ بَعْدَه- )) (بخاری‘ کتاب المغازی۔ باب بعث النبی اسامه رضی اللہ عنہ ابن زید ) ((آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روم کی طرف ایک لشکر روانہ کیا اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اس کاسردار مقرر کیا (حالانکہ اس لشکر میں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی شریک تھے۔ )لوگوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ کے سردار ہونے پر طعنہ مارا۔ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اگر تم اسامہ کی سرداری پر طعنہ دیتے ہو۔ تو اس سے پہلے تم اس کے باپ (زید بن حارثہ) کی سرداری میں بھی طعن کر چکے ہو۔ اور قسم خدا کی وہ سرداری کے لائق تھا اور سب لوگوں سے مجھ کو پیارا تھا۔ اس کے بعد (اس کا بیٹا) سب لوگوں سے پیارا ہے۔)) لوگوں کی نظر میں صرف یہ بات تھی کہ اسامہ رضی اللہ عنہ صرف بیس سال کا نوجوان ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے افضل صحابہ ان کی ماتحتی میں کیسے رہ سکتے ہیں؟ اور بعض کو یہ خیال بھی تھا کہ اسامہ غلام زادہ ہو کر بڑے بڑے معززین قریش کا افسر کیسے بن سکتا ہے؟ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |