Maktaba Wahhabi

49 - 268
کا نگران ہوتا اور ایک قاضی جو عدلیہ کا سربراہ ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حاکم اور سپہ سالار کے عہدے بھی الگ الگ کر دیئے گئے۔ فوج کو مختلف دستوں میں تقسیم کر کے ان کے سالار مقرر کر دیے گئے اور پھر ان سب کو ایک سالار اعظم کے ماتحت کر دیا گیا۔ اس سے پیشتر جنگ کے دوران ہی مختلف دستوں کے سالار مشورہ کے ذریعہ مقرر کئے جاتے تھے اور یہ بات بسا اوقات خلیفہ کی صوابدید پر منحصر ہوتی تھی۔ ان سالاروں کو قائد کہا جاتا تھا۔ خلیفہ کی طرح قائد کی اطاعت بھی واجب تھی۔ اس کی حیثیت خلیفہ کے نائب کی ہوتی تھی۔ نماز میں وہی لوگوں کی امامت کراتا۔ اگر کسی مقام پر ایک سے زیادہ قائد جمع ہو جاتے تو ان میں سے کسی اہل تر کو خلیفہ نماز کی امامت کے لئے مقرر کر دیتا۔ یہ بمنزلہ قائد القواد یا سپہ سالار اعظم سمجھا جاتا تھا۔ جب کسی مقام پر جنگ کا خاتمہ ہو جاتا اور پیش قدمی روک دی جاتی تو ان سپہ سالاروں کے فرائض فوجیوں کے معاملات کی نگرانی‘ ان کی ترتیب و مشق اور ان کے اسلحہ و سامان کی اصلاح و عمدگی کی دیکھ بھال ہوا کرتی تھی۔ اسلامی فوج کی لڑائی کا یہ طریقہ تھا کہ سالار تین دفعہ اللہ اکبر کہتا تھا۔ پہلی تکبیر پر فوج حربہ و ہتھیار سے آراستہ ہو جاتی تھی‘ دوسری پر لوگ ہتھیار تول لیتے تھے اور تیسرے نعرہ پر حملہ کر دیا جاتا تھا۔ جنگ بویب (۱۴ھ) میں سالار لشکر مثنٰی نے ابھی دوسری تکبیر نہیں کہی تھی کہ ایرانیوں نے حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسلمان ضبط نہ کر سکے اور کچھ جوش میں آ کر آگے نکل گئے مثنیٰ نے غصہ میں آکر داڑھی دانتوں کے نیچے دبا لی اور پکارے ’’خدا کے لیے اسلام کو رسوا نہ کرو‘‘۔ اس آواز کے ساتھ فوراً لوگ پیچھے ہٹے اور اپنی جگہ پر ہٹ آئے۔ پھر تیسری تکبیر پر مثنیٰ نے حملہ کیا۔ (الفاروق شبلی نعمانی ص ۱۳۷) (۶) کمانڈروں کا انتخاب: اسلامی لشکر کو کئی دستوں (BATALIAN) میں تقسیم کیا جاتا۔ ان دستوں کو جند کہتے تھے۔ اور ان کے قائد یا سالار مقرر کیے جاتے تھے۔ سپہ سالار کو اپنے چھوٹے افسروں کا انتخاب کرتے وقت ان کی حربی مہارت اور سابقہ تجربہ کا ضرور لحاظ رکھنا پڑتا تھا۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بڑے پایہ کے صحابی تھے۔ زہدوتقویٰ میں خاص مقام رکھتے تھے لیکن طبیعت میں نرمی اور رحم
Flag Counter