Maktaba Wahhabi

151 - 268
کوششوں میں رکاوٹ بنے رہیں تو پھر ان سے جنگ کی جائے جیسے کہ آیت بالا سے ثابت ہے۔ اور جنگ کسی مخصوص علاقہ یا قوم سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ فتنہ کو ختم کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بمو جب ارشاد باری تعالیٰ:۔ ﴿ وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ ﴾ (۸/۱۳۹) (اور ان سے اس وقت تک جنگ کروکہ فتنہ باقی نہ رہے۔) (۴)معرکہ کارزارمیں (۱)شبخون کی ممانعت: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: «اَنَّ رَسُول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وَسَلَّمَ اَتٰی خَیْبَرَ لَیْلًا وَکَانَ اِذَا اَتٰی قَوْمًا بِلَیْلٍ لَمْ یُغْزِیْهِمْ حتّٰی یصبح»[1] (آنحضرت اخیبر میں رات کو پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قاعدہ تھا کہ جب تک صبح نہ ہوتی ان پر حملہ نہ کرتے۔ ) لیکن اگر جنگ گوریلا قسم کی ہو اور یہ خطرہ ہو کہ حملہ کے وقت دشمن سامنے آنے کے بجائے اپنی کمین گاہوں میں گھس جائے گا۔ اور بعد میں فوج کی بے خبری سے فائدہ اُٹھا کر ان پر حملہ آور ہوگا۔ تو اس صورت میں بے خبری میں بھی حملہ کرنے کی اجازت ہے ۔ جیسے غزوہ بنو لحیان اور ذات الرقاع میں بدو ؤ ں نے اسلامی دستے دیکھ کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر جاکر پناہ لے لی تھی۔ چنانچہ سریہ علی بن ابی طالب (۶ھ )میں اسلامی دستہ کے ۱۰۰ آدمی تھے جو رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپ جاتے۔ اس طرح انہوں نے بنو سعد کو جالیا۔ پھر بھی وہ مستورات کو لے کر فرار ہوگئے تھے البتہ کچھ مال غنیمت ہاتھ آیا۔ اور سریہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (۷ھ) میں بھی یہی کچھ ہوا اور ہوازن کے لوگ فرار ہوگئے۔ (۲)دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزونہ کرنی چاہیے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter