فرمایا۔’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے شایانِ شان نہیں کہ ایک عورت کے خون سے رنگین ہو‘‘[1]۔ (۷)مقاتل اور غیرمقاتل: مقاتل ہر وہ شخص ہے۔ جو عملاً جنگ میں حصہ لے رہا ہو یا کم از کم عرفاً جنگ میں حصہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ایسے اشخاص سے قتال جائز ہے۔ اور ہر وہ شخص جو عرفاً جنگ کے قابل نہ ہو یا مزاجاً جنگ میں حصہ لینے کا مزاج نہ رکھتا ہووہ غیر مقاتل ہے۔ اور اس کا قتل جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں مندرجہ ذیل اشخاص کو غیر مقاتل قرار دیا ہے۔ بچے، بوڑھے، عورتیں ۔ درویش اور صوفی قسم کے لوگ ، معبدوں سے تعلق رکھنے والے، اندھے، لنگڑے لُولے اور دوسری قسم کے معذور لوگ۔ بعد میں خلفائے اسلام نے غیر مقاتل میں کاشتکاروں اور تاجروں کو بھی شامل کردیاتھا۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا مزاج طبعاً جنگ سے لگا نہیں کھاتا۔ (۸) جنگ کے دوران ہر وقت مسلح رہنا چاہیے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَدَّ الذَّیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَاَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ علیکم مَیْلَةً وَاحِدَةً وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِّنْ مَطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَرْضٰی اَنْ تَضَعُوْآ اَسْلِحَتَکُمْ.وَخُذُوْ ا حِذْرَکُمْ﴾(۴:۱۰۱) (کافر لوگ تو بہت چاہتے ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہوجا ؤ تاکہ وہ تم پر یکبارگی حملہ کردیں ہاں اگر تم بارش کی تکلیف یا بیماری کی وجہ سے ہتھیار اتار دو تو تم پر گناہ نہیں۔ مگر ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ ) آیت مذکورہ میں ہتھیار اتارنے کی صرف دو صورتوں میں اجازت ہے۔ بارش ہورہی ہو۔ کپڑے اور ہتھیار وغیرہ بھیگ رہے ہوں یا کوئی شخص بیماری کی وجہ سے ہتھیار بند رہنے کا متحمل نہ ہو۔ اس کے علاوہ ہتھیار اتارنے کی اجازت نہیں۔ اسی لیے آخرمیں تاکیداً پھر فرمادیا وَخُذُوْا حِذْرَکُمْ اور وَخُذُوْا حِذْرَکُمْ کے الفاظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے معنی ہوشیار اور چوکنا رہنا مسلح رہنا اور اپنے بچا ؤ کے تمام ذرائع اختیار کرنا ہے۔ مورچوں کی |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |